ETV Bharat / city

مادری زبان کے الفاظ انسان لاشعوری طور پر سیکھتا ہے: پروفیسر عتیق اللہ

ویبنار کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے مشہور افسانہ نگار، نقاد اور دانشور پروفیسر معین الدین جینابڑے (ہندوستانی زبانوں کا مرکزJNU) نے کہا کہ زبان کا تعلق اس کے بولنے والے سے ہے اس کی حالت بالکل ویسی ہی ہوگی جیسی اس کے بولنے والے کی ہے۔

مادری زبان کے الفاظ انسان لاشعوری طور پر سیکھتا ہے:پروفیسرعتیق اللہ
مادری زبان کے الفاظ انسان لاشعوری طور پر سیکھتا ہے:پروفیسرعتیق اللہ
author img

By

Published : Nov 10, 2021, 9:04 AM IST

شعبۂ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی کے زیراہتمام عالمی یوم اردو کے موقع پر بعنوان”اردو بحیثیت مادری زبان مسائل اور امکانات“ یک روزہ قومی ویبینار کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ ہندوستان میں اردو کو مادری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ زبانیں بغیر کسی وسیلے کے نہیں سیکھی جاسکتی لیکن مادری زبان کا معاملہ مختلف ہے۔ بچہ جب پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہونٹوں کو حرکت دیتا ہے تو اس سے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ ’مم‘ہے اور وہیں سے وہ اپنی مادری زبان کو غیرشعوری طور پر سیکھنے لگتا ہے۔

مادری زبان کے الفاظ انسان لاشعوری طور پر سیکھتا ہے:پروفیسرعتیق اللہ

اردو ہماری مادری زبان ہے اور ہم لوگوں نے اسے اپنے گھروں میں سیکھا ہے بعد میں اسے اپنے مطالعے کا حصہ بنایا۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر عتیق اللہ نے اس قومی ویبینار کے افتتاحی اجلاس میں کیا۔

ویبنار کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے مشہور افسانہ نگار، نقاد اور دانشور پروفیسر معین الدین جینابڑے (ہندوستانی زبانوں کا مرکزJNU) نے کہا کہ زبان کا تعلق اس کے بولنے والے سے ہے اس کی حالت بالکل ویسی ہی ہوگی جیسی اس کے بولنے والے کی ہے۔

سیاسی یا ادبی سرپرستی سے زبان میں زندگی ضرور پیدا ہوتی ہے لیکن زبان بذات خود نہ زندہ ہوتی ہے نہ مردہ۔ اس کی زندگی اور موت کا تعلق اس کے بولنے والے سے ہوتا ہے۔
اگر اردو کو بطور زبان یا مادری زبان آپ زندہ اور توانا رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے بولنے والوں کو اپنی حالت میں پائیداری اور توانائی پیدا کرنی ہوگی۔

مہمان خصوصی پروفیسر مشتاق احمد، رجسٹرار للت نرائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ نے یہ کہا یہ نہایت اہم موضوع ہے اور اس پر متواتر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مکاتب اور اسکول میں جانا ہوگا اور یہ احساس عوام میں پیدا کرنا ہوگا کہ ہماری مادری زبان کیسے مرکزی زبان کے طور پر اپنی شناخت قائم رکھ سکتی ہے۔
اس سے قبل پروفیسر آفتاب احمد آفاقی صدر شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی نے اپنے استقبالیہ کلمات میں موضوع کا تعارف پیش کرتے ہوئے مادری زبان کے طور پر اردو زبان کی اہمیت اور اس میں موجودہ امکانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری زبان کو چند مسائل ضرور درپیش ہیں لیکن اس میں جو امکانات موجود ہیں ان سے آشنا ہونے کی ضرورت ہے۔ اس افتتاحی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر مشرف علی نے کی اور شکریہ کی رسم ڈاکٹر رقیہ بانو نے ادا کی۔

افتتاحی اجلاس کے بعد تکنیکی اجلاس منعقد ہوا جس میں اردو بطور مادری زبان اور اس کے مسائل اور امکانات سے متعلق متعدد مقالے پیش کیے گئے۔

مزید پڑھیں:


پہلے اجلاس میں ڈاکٹرمحمد عقیل (بنارس ہندویونیورسٹی) ڈاکٹر زبیر شاداب (اردواکادمی، علی گڑھ یونیورسٹی) ڈاکٹر شہناز قادری(شعبہ اردو، مولانا آزاد کالج جموں) جناب احمد جاوید(مدیر روزنامہ انقلاب پٹنہ)نے اپنے مقالات پیش کیے جس کی صدارت پروفیسر شہاب الدین ثاقب(شعبہ اردو،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) پروفیسر آفتاب اشرف(صدرشعبہ اردو،للت نارائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ) پروفیسر مظہرمہدی(ہندوستانی زبانوں کا مرکز جواہرلال نہرویونیورسٹی) نے فرمائی۔

نظامت کے فرائض ڈاکٹر رشی کمار شرما اور شکریہ کی رسم ڈاکٹر عبدالسمیع نے ادا کی۔

شعبۂ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی کے زیراہتمام عالمی یوم اردو کے موقع پر بعنوان”اردو بحیثیت مادری زبان مسائل اور امکانات“ یک روزہ قومی ویبینار کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ ہندوستان میں اردو کو مادری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ زبانیں بغیر کسی وسیلے کے نہیں سیکھی جاسکتی لیکن مادری زبان کا معاملہ مختلف ہے۔ بچہ جب پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہونٹوں کو حرکت دیتا ہے تو اس سے جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ ’مم‘ہے اور وہیں سے وہ اپنی مادری زبان کو غیرشعوری طور پر سیکھنے لگتا ہے۔

مادری زبان کے الفاظ انسان لاشعوری طور پر سیکھتا ہے:پروفیسرعتیق اللہ

اردو ہماری مادری زبان ہے اور ہم لوگوں نے اسے اپنے گھروں میں سیکھا ہے بعد میں اسے اپنے مطالعے کا حصہ بنایا۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر عتیق اللہ نے اس قومی ویبینار کے افتتاحی اجلاس میں کیا۔

ویبنار کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے مشہور افسانہ نگار، نقاد اور دانشور پروفیسر معین الدین جینابڑے (ہندوستانی زبانوں کا مرکزJNU) نے کہا کہ زبان کا تعلق اس کے بولنے والے سے ہے اس کی حالت بالکل ویسی ہی ہوگی جیسی اس کے بولنے والے کی ہے۔

سیاسی یا ادبی سرپرستی سے زبان میں زندگی ضرور پیدا ہوتی ہے لیکن زبان بذات خود نہ زندہ ہوتی ہے نہ مردہ۔ اس کی زندگی اور موت کا تعلق اس کے بولنے والے سے ہوتا ہے۔
اگر اردو کو بطور زبان یا مادری زبان آپ زندہ اور توانا رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے بولنے والوں کو اپنی حالت میں پائیداری اور توانائی پیدا کرنی ہوگی۔

مہمان خصوصی پروفیسر مشتاق احمد، رجسٹرار للت نرائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ نے یہ کہا یہ نہایت اہم موضوع ہے اور اس پر متواتر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مکاتب اور اسکول میں جانا ہوگا اور یہ احساس عوام میں پیدا کرنا ہوگا کہ ہماری مادری زبان کیسے مرکزی زبان کے طور پر اپنی شناخت قائم رکھ سکتی ہے۔
اس سے قبل پروفیسر آفتاب احمد آفاقی صدر شعبہ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی نے اپنے استقبالیہ کلمات میں موضوع کا تعارف پیش کرتے ہوئے مادری زبان کے طور پر اردو زبان کی اہمیت اور اس میں موجودہ امکانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری زبان کو چند مسائل ضرور درپیش ہیں لیکن اس میں جو امکانات موجود ہیں ان سے آشنا ہونے کی ضرورت ہے۔ اس افتتاحی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر مشرف علی نے کی اور شکریہ کی رسم ڈاکٹر رقیہ بانو نے ادا کی۔

افتتاحی اجلاس کے بعد تکنیکی اجلاس منعقد ہوا جس میں اردو بطور مادری زبان اور اس کے مسائل اور امکانات سے متعلق متعدد مقالے پیش کیے گئے۔

مزید پڑھیں:


پہلے اجلاس میں ڈاکٹرمحمد عقیل (بنارس ہندویونیورسٹی) ڈاکٹر زبیر شاداب (اردواکادمی، علی گڑھ یونیورسٹی) ڈاکٹر شہناز قادری(شعبہ اردو، مولانا آزاد کالج جموں) جناب احمد جاوید(مدیر روزنامہ انقلاب پٹنہ)نے اپنے مقالات پیش کیے جس کی صدارت پروفیسر شہاب الدین ثاقب(شعبہ اردو،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) پروفیسر آفتاب اشرف(صدرشعبہ اردو،للت نارائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ) پروفیسر مظہرمہدی(ہندوستانی زبانوں کا مرکز جواہرلال نہرویونیورسٹی) نے فرمائی۔

نظامت کے فرائض ڈاکٹر رشی کمار شرما اور شکریہ کی رسم ڈاکٹر عبدالسمیع نے ادا کی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.