ETV Bharat / city

کٹھوعہ معاملہ: متاثرہ بچی کے اہلخانہ کو انصاف ملنے کی امید - Jammu Kashmir

جموں و کشمیر کے ضلع کٹھوعہ کے رسانہ گاؤں میں گزشتہ برس جنوری میں پیش آئے آٹھ سالہ کمسن بچی کے ساتھ کیے گئے وحشیانہ زیادتی اور قتل کیس کا عدالتی فیصلہ 15 جون تک سامنے آسکتا ہے۔

فائل فوٹو
author img

By

Published : May 14, 2019, 11:16 PM IST

واقعہ کے ملزمان کا 'آن کیمرہ' اور روزانہ کی بنیادوں پر ٹرائل ڈسٹرک اینڈ سیشن کورٹ پٹھان کوٹ میں جاری ہے اور وکیل استغاثہ کے مطابق متاثرہ بچی کا کیس انتہائی مضبوط ہے۔

متاثرہ بچی کے والد محمد یوسف پجوال کے ذاتی وکیل (پرائیویٹ کونسل) مبین فاروقی جو سپیشل پبلک پراسیکیوٹر سنتوک سنگھ بسرا اور جگدیش کمار چوپڑا کو کیس میں اسسٹ کررہے ہیں، نے بتایا کہ جون کے وسط میں فیصلہ آنے کی امید ہے اور ملزمان کو سزائیں ملنا ایک سو ایک فیصد طے ہے۔

انہوں نے بتایا 'جون کی 15 تاریخ تک کیس کا فیصلہ سامنے آ جائے گا۔ اس وقت وکلاء صفائی اپنے گواہ عدالت میں پیش کررہے ہیں۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ واقعہ کے ملزمان کا ان کیمرہ اور روزانہ بنیادوں پر ٹرائل جاری ہے'۔

مبین فاروقی نے بتایا کہ انہیں ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ ملزمان کو سزائیں ملیں گی۔

ان کا کہنا تھا 'استغاثہ کی طرف سے گواہان کی ایک معقول تعداد کو عدالت میں پیش کیا گیا جن کے بیانات قلمبند ہوچکے ہیں۔ ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد بھی عدالت میں جمع کئے جاچکے ہیں۔ ہمیں ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ ملزمان کو سزائیں سنائی جائیں گی۔ ہمارا کیس بہت ہی مضبوط ہے'۔

مبین فاروقی نے بتایا کہ استغاثہ سینیئر ترین وکلاء کی ٹیم پر مشتمل ہے۔ معصوم بچی کو ہر حال میں انصاف دلایا جائے گا۔

مبین فاروقی نے دعویٰ کیا کہ کچھ عناصر کیس میں پیچیدگیاں پیدا کرنے کی کوششیں کررہے ہیں تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی بھی تفصیلات فراہم کرنے سے معذرت ظاہر کی۔

ان کا کہنا تھا 'کیس میں کچھ پیچیدگیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جن کا میں فون پر خلاصہ نہیں کرسکتا'۔

واضح رہے کہ متاثرہ بچی کے والد نے گذشتہ برس نومبر میں اس کیس کی بدولت راتوں رات شہرت پانے والی خاتون وکیل دیپکا سنگھ راجاوت کو اس کیس سے فارغ کردیا۔ فارغ کیے جانے کی وجہ دیپکا راجاوت کی کیس میں مبینہ عدم دلچسپی بتائی گئی تھی۔ دیپکا راجاوت کا کیس سے ہٹانے جانے پر کہنا تھا کہ ان کے لئے پٹھان کوٹ عدالت میں ہر روز حاضر ہونا مشکل تھا۔


محمد یوسف نے پٹھان کوٹ عدالت کے احاطے میں دیپکا کو کیس سے ہٹانے کے معاملے پر نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ کیس کی اب تک 110 سماعتیں ہوچکی ہیں اور دیپکا راجاوت محض دو مرتبہ عدالت میں حاضر رہیں۔

قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے 7 مئی 2018 ء کو کٹھوعہ کیس کی جانچ سی بی آئی سے کرانے سے انکار کرتے ہوئے کیس کی سماعت کٹھوعہ سے پٹھان کوٹ کی عدالت میں منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی بنچ نے یہ حکم سنایا تھا۔
سپریم کورٹ کے حکمنامے کی روشنی میں پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کٹھوعہ سنجیو گپتا نے 22 مئی کو کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس کی پٹھان کوٹ منتقلی کے باضابطہ احکامات جاری کردیے تھے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر 31 مئی کو ڈسٹرک اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ کی عدالت میں کیس کی 'ان کیمرہ' اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی جس کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

کیس کے ملزمان میں واقعہ کے سرغنہ اور مندر کے نگران سانجی رام، اس کا بیٹا وشال، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندر ورما، سانجی رام کا بھتیجا وشال، وشال کا دوست پرویش کمار منو، تحقیقاتی افسران تلک راج اور آنند دتا شامل ہیں۔

واقعہ کے ملزمان کا 'آن کیمرہ' اور روزانہ کی بنیادوں پر ٹرائل ڈسٹرک اینڈ سیشن کورٹ پٹھان کوٹ میں جاری ہے اور وکیل استغاثہ کے مطابق متاثرہ بچی کا کیس انتہائی مضبوط ہے۔

متاثرہ بچی کے والد محمد یوسف پجوال کے ذاتی وکیل (پرائیویٹ کونسل) مبین فاروقی جو سپیشل پبلک پراسیکیوٹر سنتوک سنگھ بسرا اور جگدیش کمار چوپڑا کو کیس میں اسسٹ کررہے ہیں، نے بتایا کہ جون کے وسط میں فیصلہ آنے کی امید ہے اور ملزمان کو سزائیں ملنا ایک سو ایک فیصد طے ہے۔

انہوں نے بتایا 'جون کی 15 تاریخ تک کیس کا فیصلہ سامنے آ جائے گا۔ اس وقت وکلاء صفائی اپنے گواہ عدالت میں پیش کررہے ہیں۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ واقعہ کے ملزمان کا ان کیمرہ اور روزانہ بنیادوں پر ٹرائل جاری ہے'۔

مبین فاروقی نے بتایا کہ انہیں ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ ملزمان کو سزائیں ملیں گی۔

ان کا کہنا تھا 'استغاثہ کی طرف سے گواہان کی ایک معقول تعداد کو عدالت میں پیش کیا گیا جن کے بیانات قلمبند ہوچکے ہیں۔ ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد بھی عدالت میں جمع کئے جاچکے ہیں۔ ہمیں ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ ملزمان کو سزائیں سنائی جائیں گی۔ ہمارا کیس بہت ہی مضبوط ہے'۔

مبین فاروقی نے بتایا کہ استغاثہ سینیئر ترین وکلاء کی ٹیم پر مشتمل ہے۔ معصوم بچی کو ہر حال میں انصاف دلایا جائے گا۔

مبین فاروقی نے دعویٰ کیا کہ کچھ عناصر کیس میں پیچیدگیاں پیدا کرنے کی کوششیں کررہے ہیں تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی بھی تفصیلات فراہم کرنے سے معذرت ظاہر کی۔

ان کا کہنا تھا 'کیس میں کچھ پیچیدگیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جن کا میں فون پر خلاصہ نہیں کرسکتا'۔

واضح رہے کہ متاثرہ بچی کے والد نے گذشتہ برس نومبر میں اس کیس کی بدولت راتوں رات شہرت پانے والی خاتون وکیل دیپکا سنگھ راجاوت کو اس کیس سے فارغ کردیا۔ فارغ کیے جانے کی وجہ دیپکا راجاوت کی کیس میں مبینہ عدم دلچسپی بتائی گئی تھی۔ دیپکا راجاوت کا کیس سے ہٹانے جانے پر کہنا تھا کہ ان کے لئے پٹھان کوٹ عدالت میں ہر روز حاضر ہونا مشکل تھا۔


محمد یوسف نے پٹھان کوٹ عدالت کے احاطے میں دیپکا کو کیس سے ہٹانے کے معاملے پر نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ کیس کی اب تک 110 سماعتیں ہوچکی ہیں اور دیپکا راجاوت محض دو مرتبہ عدالت میں حاضر رہیں۔

قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے 7 مئی 2018 ء کو کٹھوعہ کیس کی جانچ سی بی آئی سے کرانے سے انکار کرتے ہوئے کیس کی سماعت کٹھوعہ سے پٹھان کوٹ کی عدالت میں منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس وقت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی بنچ نے یہ حکم سنایا تھا۔
سپریم کورٹ کے حکمنامے کی روشنی میں پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کٹھوعہ سنجیو گپتا نے 22 مئی کو کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس کی پٹھان کوٹ منتقلی کے باضابطہ احکامات جاری کردیے تھے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر 31 مئی کو ڈسٹرک اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ کی عدالت میں کیس کی 'ان کیمرہ' اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی جس کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

کیس کے ملزمان میں واقعہ کے سرغنہ اور مندر کے نگران سانجی رام، اس کا بیٹا وشال، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندر ورما، سانجی رام کا بھتیجا وشال، وشال کا دوست پرویش کمار منو، تحقیقاتی افسران تلک راج اور آنند دتا شامل ہیں۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.