سرینگر: کرائم گزیٹ 2021 کے مطابق جموں وکشمیر میں تقریبا 6 سو افراد نے خودکشی کی کوشش کی اور یہ تعداد 2020 کے اعداد وشمار کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔ماہرین کہتے ہیں اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ سماجی خوف اور بدنامی کے ڈر سے خودکشی کے بیشتر معاملات ریکارڈ ہی نہیں ہوتے ہیں ۔
وادی کشمیر میں خودکشی کے خطرناک رجحان کو دیکھتے ہوئے اور اس پر قابو پانے کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیور سائنسز نے ایک غیر سرکار ادارے ایس آر او کے تعاون سے 'زندگی' نام سے ایک ہیلپ لائن قائم کی ہے۔ جس میں ماہرین کی ایک ٹیم کام کررہی ہے۔ Zindagi Helpline A Glimmer Of Hope In Despair
ماہر نفسیات ڈاکٹر ارشد حسین کہتے ہیں کہ اس ہیلپ لائن کے ذریعے ہم ان افراد تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں جنہیں خودکشی کرنے کا خیال پنپتا ہےاور 'زندگی' ہیلپ لائن سے بنا کسی شور و غل کے روزانہ کی بنیاد پر کم از کم 3 قیمتی جانیں خودکشی کرنے سے بچائی جارہی ہیں۔
'زندگی' ہیلپ لائن کےٹول فری نمبر پر کوئی بھی ایسا شخص جس کے دماغ میں خودکشی کا خیال آتا ہے۔ شام 6 بجے سے رات کے 11 بجے تک ماہرین نفسیات کی خدمات حاصل کرسکتا ہے۔ ہیلپ لائن کی کوآرڈینیٹر اور کلینکل سائیکلوجسٹ زویا میر کہتی ہیں کہ نتائج بہتر سامنے آرہے ہیں اور ایسے میں ہم نا امیدی اور مایوسی کے بھنور میں پھنسے ان لوگوں کو باہر نکالنے میں کافی حد تک کامیاب ہورہے ہیں جو کہ انتہائی قدم اٹھانے پر آمادہ ہوتے ہیں ۔ Zindagi Helpline A Glimmer Of Hope In Despair
زندگی ہیلپ لائن رواں برس مئی کے مہینے میں شروع کی گئی ہے۔ غیر سرکاری ادارہ ایس آر او اس ہیلپ لائن کو چلانے میں اپنا تکینکی اور لاجسٹک تعاون پیش کررہا ہے۔ ایس آر او کے ڈائریکٹر محمد آفاق کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ہیلپ لائن وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس سے کافی حد تک خودکشی کے واقعات کو رونما ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں خودکشی کے پیچھے سماجی، معاشی، اور دیگر عوامل کارفرما ہیں ۔لیکن جب انسان پر زہنی تناؤ طاری ہو جاتا ہے تو اس کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ شاہد موت کو گلے لگانے کے بغیر اب کوئی بھی راستہ باقی نہیں بچا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: Mehbooba Mufti Reaction on Gyanvapi Case بی جے پی مسجد اور مندر موضوع پر لوگوں کو الجھا کر رکھتی ہے