ان باتوں کا اظہار مسلح شدت پسندی کو خیر باد کہنے والے افراد کے ساتھ شادی کی ہوئیں پاکستانی خواتین نے سرینگر میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
انہوں نےکہا کہ نیشنل کانفرنس حکومت کے دوران اگرچہ ہم باز آبادی کاری پالیسی کے تحت نیپال کے راستے پاکستان سے کشمیر آئے۔ تاہم تب سے نہ تو ہمیں یہاں کے شہری ہونے کے حقوق ہی دئے جاتے ہیں اور نہ ہی اتنے برسوں سے ہمیں پاکستان میں اپنے عزیز و اقارب اور ماں باپ سے ہی ملنے کے لیے سفری دستاویزات فراہم کئے جاتے ہیں'۔
ان کا کہنا ہے کہ 'ان کی زندگی اجیرن اور قید خانے میں بند ہونے کے مترادف بن چکی ہے'۔
ان کے مطابق اس جدائی کے غم میں کئی ساری خواتین یہاں ذہنی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوگئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'اگرچہ ہم کئی سالوں سے اپنے مطالبات کو لے کر احتجاج کررہے ہیں کہ ہمیں پاکستان میں مقیم اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے سفری دستاویزات دیے جائے تاہم بھارت اور پاکستان کی حکومتیں ہمارے جائز مطالبات پر کوئی بھی غور و خوض نہیں کر رہی ہیں'۔
پریس کانفرنس کے دوران سے چند طلاق شدہ خواتین نے کہا کہ 'اگرچہ وہ طلاق شدہ ہیں تاہم اپنے گھر یعنی پاکستان جانے کے سفری دستاویزات نہ دیے جانے کی صورت میں انہیں مجبوراً طلاق کے باوجود بھی اسی گھر میں رہنا ٘پڑتا ہے'۔
انہوں نے بھارت پاک حکومتوں سے پر زور اپیل کی کہ انہیں سفری دستاویزات فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنے ماں باپ اور عزیز واقارب سے مل پائیں۔