گزشتہ برس سابق مخلوط سرکار نے ماہ صیام میں یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جس دوران سیکورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے ساتھ تصادم آرائیوں کا سلسلہ وقتی طور بند کیا تھا۔
اگرچہ عسکریت پسندوں کی طرف سے جنگ بندی کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا تاہم انکی جانب سے بھی سیکورٹی فوسرز پر کوئی بڑا حملہ نہیں کیا تھا۔
ایک مہینے کی اس جنگ بندی کے دوران وادی میں عوام نے رمضان کی عبادت قریباً پر سکون ماحول میں انجام دی تھی۔
سابق رمضان میں تشدد آمیز واقعات کے دوران ہلاکتوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی تھی اور وادی کے میدانی علاقوں میں قدرے امن کا ماحول تھا۔
اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ماہ صیام، جو 16 مئی سے شروع ہوا تھا، میں کشمیر کے سرحدی علاقوں بالخصوص کپوارہ میں مختلف معرکہ آرائیوں کے دوران 24 عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے، جبکہ سیکورٹی فورسز کے 6 اہلکار اور 5عام شہری ہلاک ہوئے تھے جس میں کشمیر کے سینئر صحافی شجاعت بخاری بھی شامل تھے۔ تاہم اس دوران عسکریت پسندوں نے جنوبی کشمیر کے اضلاع میں سیکورٹی فورسز پر قریباً 15 گرینڈ حملے کئے، لیکن میدانی علاقوں میں کوئی تصادم نہیں ہوا تھا۔
اگرچہ وادی میں عوامی اور سیاسی حلقوں نے سابق حکومت کی اس یکطرفہ جنگ بندی کو سراہا تھا، لیکن مرکزی بھاجپا سرکار میں اس وقت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے 17 جون کو جنگ بندی کے یکطرفہ فیصلے کو منسوخ کیا تھا جس سے پی ڈی پی ناراض ہوئی تھی۔
ریاست میں گورنر راج اور ملک میں عام انتخابات کے پیش نظر مرکزی سرکار نے رواں برس کے صیام میں جنگ بندی کا اعلان نہیں کیا جس کی وجہ سے وادی میں پر تشدد واقعات اور ہلاکتوں میں کافی اضافہ دکھائی دیا۔
رواں برس 6 مئی سے رمضان کا آغاز ہوا اور اس دوران عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسز کے مابین معرکہ آرائیوں کا ہلاکت خیز سلسلہ چلتا رہا۔
قریبا 12 خونین جھڑپوں میں 25 عسکریت پسند، 2 سیکورٹی اہلکار اور 7 عام شہری ہلاک ہوئے، جبکہ ایک سو سے زائد عام شہری زخمی بھی ہوئے۔
جنگ بندی کو صحیح فیصلہ قرار دیتے ہوئے سیاسی حلقوں کا ماننا ہے کہ حکومتوں کو عوام کے حق اور مفاد میں فیصلے لینے چاہئے۔
وہیں عوامی حلقے بھی امن کی بحالی کیلئے اور ریاست بالخصوص وادی میں جنگ بندی کے حق میں اپنا تاثر ظاہر کر رہے ہیں۔