ETV Bharat / city

کشمیر: بڑی درد بھری ہے صحافیوں کی کہانی - کشمیر میں صحافیوں

کشمیر میں صحافیوں کا کام ہمیشہ چیلنج سے بھرا ہوتا ہے کیونکہ یہاں پر کسی بھی صحافی کو اسکے پیشے کے تئیں انتظامیہ کی جانب سے کوئی سہولیات فراہم نہیں کی جاتی ہیں۔

کشمیر میں صحافیوں کا کام ہمیشہ چیلنج سے بھرا ہوتا ہے
author img

By

Published : Nov 16, 2019, 8:53 PM IST

شورش زدہ وادی کشمیر میں گذشتہ تین دہائیوں کے دوران جہاں ہر طبقہ متأثر ہوا ہے وہیں یہاں کے صحافی بھی حد درجہ مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں۔ صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون ہے، تاہم وادی کشمیر میں یہ ستون مسلسل نشانے پر رہا ہے اور صحافی تشدد کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔

کشمیر: بڑی درد بھری ہے صحافیوں کی کہانی

کشیدہ حالات اور سکیورٹی کے مؤثر انتظامات نہ ہونے کے باوجود کشمیری صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں تساہلی نہیں برتتے۔

گزشتہ برسوں میں 15 صحافی ہلاک جبکہ 20 سے زائد پیلٹ یا گولی لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔ صحافت کے علمبردار شجاعت بخاری کا قتل ابھی بھی ذہنوں میں تازہ ہے۔ معروف فوٹو جرنلسٹ ظہیب مقبول ہمیشہ کے لیے ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہو گئے۔
ابراہیم موسیٰ کا کہنا ہے کہ کشمیر میں کام کرنا کافی چیلنج بھرا ہوتا ہےکیونکہ یہاں پر کسی بھی صحافی کو اسکے پیشے کے تئیں سہولیات نہیں فراہم کی جاتی ہے۔

ثنا ارشاد کے مطابق صحافیوں کو ہمیشہ شبہ کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جب سکیوریٹی اور مظاہرین کو ہم لوگ کور کرت ہیں۔

متعدد صحافیوں کے خلاف مقدمے بھی درج کیے گئے جن میں آصف سلطان اور کامران یوسف قابل ذکر ہیں۔

صحافیوں کا الزام ہے کہ 'فورسز کی جانب سے بھی صحافیوں کو بسا اوقات نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن انتظامیہ کبھی ان کی حفاظت کے تیئں سنجیدہ نہیں رہی'۔

تشدد کے شکار صحافی نثار الحق کا کہنا ہے: 'اب میں اپنا کام آزادانہ طور پر انجام نہیں دے پا رہا ہوں اور میری جان کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ صبح کام پر جاتے وقت انہیں واپس آنے کا بھروسہ ہی نہیں ہوتا ہے۔

کسی بھی سماج میں اگر پریس کمزور ہو جائے تو جمہوری قدروں کو گہن لگ جاتا ہے، لہذا کشمیر میں جمہوریت کے چوتھے ستون کو مضبوط رکھنے کی تمام تدابیر ہونی چاہیں تاکہ صحافی اپنے فرائض آزادانہ طور پر انجام دے سکیں۔

شورش زدہ وادی کشمیر میں گذشتہ تین دہائیوں کے دوران جہاں ہر طبقہ متأثر ہوا ہے وہیں یہاں کے صحافی بھی حد درجہ مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں۔ صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون ہے، تاہم وادی کشمیر میں یہ ستون مسلسل نشانے پر رہا ہے اور صحافی تشدد کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔

کشمیر: بڑی درد بھری ہے صحافیوں کی کہانی

کشیدہ حالات اور سکیورٹی کے مؤثر انتظامات نہ ہونے کے باوجود کشمیری صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں تساہلی نہیں برتتے۔

گزشتہ برسوں میں 15 صحافی ہلاک جبکہ 20 سے زائد پیلٹ یا گولی لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔ صحافت کے علمبردار شجاعت بخاری کا قتل ابھی بھی ذہنوں میں تازہ ہے۔ معروف فوٹو جرنلسٹ ظہیب مقبول ہمیشہ کے لیے ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہو گئے۔
ابراہیم موسیٰ کا کہنا ہے کہ کشمیر میں کام کرنا کافی چیلنج بھرا ہوتا ہےکیونکہ یہاں پر کسی بھی صحافی کو اسکے پیشے کے تئیں سہولیات نہیں فراہم کی جاتی ہے۔

ثنا ارشاد کے مطابق صحافیوں کو ہمیشہ شبہ کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جب سکیوریٹی اور مظاہرین کو ہم لوگ کور کرت ہیں۔

متعدد صحافیوں کے خلاف مقدمے بھی درج کیے گئے جن میں آصف سلطان اور کامران یوسف قابل ذکر ہیں۔

صحافیوں کا الزام ہے کہ 'فورسز کی جانب سے بھی صحافیوں کو بسا اوقات نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن انتظامیہ کبھی ان کی حفاظت کے تیئں سنجیدہ نہیں رہی'۔

تشدد کے شکار صحافی نثار الحق کا کہنا ہے: 'اب میں اپنا کام آزادانہ طور پر انجام نہیں دے پا رہا ہوں اور میری جان کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ صبح کام پر جاتے وقت انہیں واپس آنے کا بھروسہ ہی نہیں ہوتا ہے۔

کسی بھی سماج میں اگر پریس کمزور ہو جائے تو جمہوری قدروں کو گہن لگ جاتا ہے، لہذا کشمیر میں جمہوریت کے چوتھے ستون کو مضبوط رکھنے کی تمام تدابیر ہونی چاہیں تاکہ صحافی اپنے فرائض آزادانہ طور پر انجام دے سکیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.