ان باتوں کا اظہار ایس ایس پی سرینگر ڈاکٹر حسیب مغل نے شہر سرینگر میں نوجوانوں میں منشیات کے تئیں بڑھتے رجحان کے تناظر میں ای ٹی وی بھارت کے ساتھ ایک خاص بات چیت کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ سرینگر خاص کر شہر خاص میں نوجوان نشے کی لت میں مبتلا ہو رہے ہیں جو ایک تشویش ناک بات ضرور ہے تاہم پولیس اس مسئلے پر خصوصی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے جس کے لیے اہم اور موثر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ منشیات کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف سخت قانون موجود ہے تاہم منشیات اور نشیلی ادویات استعمال کرنے کے لیے اتنا موثر قانون موجود نہیں جس بنا پر انہیں عبرت ناک سزا دی جا سکے۔ لیکن ’’منشیات کی وبا اور آئے روز نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں نشہ آور اشیاء کے بے تحاشا استعمال کے بڑھتے تناسب کو مدنظر رکھ کر ڈرگ اینڈ کاسمیٹک ایکٹ کے قانون میں ترمیم کی از حد ضرورت ہے۔‘‘
ایس ایس پی سرینگر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نشے کے اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے قانونی ترمیم کے ساتھ ساتھ پولیس کو والدین، سماج کے ذی حس افراد، مذہبی رہنماؤں کا تعاون بھی ضروری ہے۔ دوسری جانب صحت عامہ کا بھی اس حوالے سے ایک اہم رول بنتا ہے تبھی نوجوانوں کو نشے کی اس لت سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔
نمائندے کے سوال کے ردعمل میں ڈاکڑ حسیب مغل نے کہا کہ ’’چرس، افیون اور دیگر نشیلی اشیاء کے کاروباری کے خلاف نکیل کس رہی ہے جس کے نتیجے میں حال ہی میں منشیات کا دھندا کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لاکر انہیں گرفتار کیا گیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا پولیس شہر سرینگر میں آنے والے وقت میں منشیات کے ناسور کاقلع قمع کرنے کے لیے اہم اقدامات پر کام کر رہی ہے۔
ایس ایس پی سرینگر ڈاکٹر حسیب مغل نے مزید کہا کہ منشیات کو روکنے میں پولیس کے کردار سے پہلے والدین کا رول اہم ہے۔ انکا کہنا تھا کہ آج کے دور میں والدین اولاد کو تمام تر سہولیات بہم رکھتے ہیں تاہم انکے پاس اولاد کے ساتھ گزارنے کے لئے وقت نہیں ہے۔
انکا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو منشیات سے دور رکھنے کے لئے والدین، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کا اولین کردار بنتا ہے۔