شاہ فیصل ان مین اسٹریم لیڈروں میں شامل ہیں جنہیں گزشتہ برس حکام نے ’نقص امن کے خدشات‘ کے پیش نظر حراست میں لیا تھا۔
شاہ فیصل نے گرفتاری سے چند ماہ قبل سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر اپنی سیاسی جماعت ’جموں و کشمیر پیپلز موومنٹ ‘ کی داغ بیل ڈالی تھی اور انتخابی میدان میں آنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
لیکن جموں و کشمیر کی سیاسی ہیئت تبدیل ہونے اور ریاست کا درجہ گھٹاکر اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کئے جانے کے بھارتی حکومت کے فیصلے کے بعد شاہ فیصل کو متعدد کشمیری رہنماؤں سمیت حراست میں لیا گیا۔
فیصل کی اہلیہ ارم کہتی ہیں کہ انکا پانچ سالہ بیٹا جامی فیصل اس بارے میں اکثر سوال پوچھ رہا ہے کہ آخر انکے والد کو کیوں جیل میں بند کردیا گیا ہے۔
انکے مطابق جامی فیصل اکثر اپنے والد کو یاد کر کے اُن سے ملنے کی ضد کرتا رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اُن کے والد جلد سے جلد واپس گھرآئیں۔
ارم فیصل نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا 'میرے شوہر گزشتہ 240 روز سے حراست میں ہیں۔ اب اُن کی رہائی جلد عمل میں لانی چاہیے کیوںکہ وادی میں پورے ملک کی طرح کورونا وائرس سے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ جامی گزشتہ فروری کی 20 تاریخ کو پانچ سال کا ہوا۔ وہ اپنے والد کو گلے لگانا چاہتا تھا۔ اُن کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا۔ پر ایسا ممکن نہیں ہورہا ہے۔'
ارم کا مزید کہنا تھا کہ 'جب بھی وہ اپنے والد کے تعلق سے کوئی سوال کرتا ہے تو میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ وہ پوچھتا ہے کہ میرے والد جیل میں کیوں ہیں؟ میں کیا بولوں، میرے شوہر نے کوئی جرم نہیں کیا۔ وہ امن کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ پی ایس اے میں جو الزامات اُن پر عائد کیے گئے ہیں وہ سب بے بنیاد ہیں۔'
واضح رہے کہ گزشتہ برس 14 اگست کو شاہ فیصل کو دہلی کے اندرا گاندھی ہوائی اڈّے سے گرفتار کیا گیا تھا جب وہ بیرون مُلک سفر پر جا رہے تھے۔ بعدازاں اُن پر پی ایس اے عائد کر کے وادی منتقل کیا گیا۔
شاہ فیصل نے 2010 میں ائی اے ایس کے امتحان میں ٹاپ کرنے کے بعد تقریباً دس سال تک سرکاری نوکری کی۔ اس سے قبل وہ بطور ڈاکٹر بھی وادی میں کام کر چکے تھے۔ شاہ فیصل کو کئی برس تک کشمیر کا پوسٹر بوائے گردانا گیا اور انڈین سیول سروس میں انکی کارکردگی کو کشمیری جوانوں کیلئے مشعل راہ بتایا گیا لیکن حکومتی پالیستوں کی خلاف ورزی کرنے کے بعد اب انہیں جیل میں بند کردیا گیا ہے۔
جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد اُنہوں نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پر مرکزی حکومت کی نکتہ چینی بھی کی تھی۔
اپنے ٹویٹ میں اُنہوں نے لکھا تھا کہ 'کشمیر میں خوف کا ماحول ہے۔ ہر کسی کا دل ٹوٹ گیا ہے۔ ہر کسی کے چہرے پر شکست نظر آ رہی ہے۔ تاریخ نے ایک تباہ کن موڑ لیا ہے۔ عوام کی شناخت، تاریخ کو دن کے اُجالے میں چُرایا گیا ہے۔
شاہ فیصل کے ملازمت سے پہلے ہارورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم شروع کی تھی۔ انکی اہلیہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتے ہیں لیکن حکومت انہیں رہا نہیں کررہی ہے۔
حکام نے دو سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کو رہا کردیا ہے جبکہ ایک اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو اپنی رہائش گاہ میں منتقل کیا گیا ہے حالانکہ ابھی انہیں رہائی نہیں دی گئی ہے۔
پوری دنیا میں کرونا وائرس سے مچی تباہی کے بعد جیلوں میں نظربند افراد کو رہا کیا جارہا ہے لیکن حکام کشمیر میں اس سلسے میں کوئی حتمی فیصلہ لینے میں تامل کررہے ہیں۔
جموں و کشمیر میں درجنوں سیاسی کارکن، مقید ہیں جن میں سے کئی ایک سابق ریاست سے باہر کی جیلوں میں بھی بند کئے گئے ہیں۔