ای ٹی وی بھارت کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے سوز کا کہنا تھا کہ " گزشتہ برس لیے گئے فیصلے کے بعد جموں وکشمیر اور مرکز کے درمیان خلا پیدا ہوگیا ہے، وادی کی صورتحال بہتر نہیں ہوئی بلکہ بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے'۔
وزیر دفاع کے بیان پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ " جھوٹ اگر کسی بھی اونچائی سے بولا جائے تب بھی وہ جھوٹ ہی رہتا ہے، یہ بہت افسوسناک بات ہے کہ وزیر دفاع بیان دے رہے ہیں تاہم زمینی سطح پر کچھ اور ہی باتیں سامنے آ رہی ہیں، اگر وہ سچ نہیں بول سکتے تو کم سے کم جھوٹ مت بولو'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'نازی حکومت کی بھی یہی سوچ تھی کہ جھوٹ ایسے بولو کہ وہ سچ لگے، لیکن ان سب چیزوں سے کچھ ہوتا نہیں ہے وہ ہم سب دیکھ چکے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ کچھ کرنا چاہتی ہیں تو وہ زیر حراست تمام سیاسی لیڈران جن میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں انہیں رہا کریں، اس سے جموں و کشمیر میں دوبارہ سیاسی سرگرمیوں کو صحیح طریقے سے بحال ہو سکتی ہیں۔ باقی وہ بھی جانتے ہیں کہ دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی ایک غلط فیصلہ تھا جس وجہ سے جموں و کشمیر اور بھارت کے درمیان آئینی تعلقات کو ٹھیس پہنچی ہے'۔