جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے سماجی رابطہ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ 'بے قصور عام شہریوں کو تصادم آرائی کے دوران ڈھال بنانا اور پھر اُن کو گولیوں کے تبادلے میں ہلاک کرکے عسکری معاون قرار دینا اب بھارت سرکار کی رول بُک کا حصہ بن گیا ہے۔'
اُن کا مزید کہنا تھا کہ 'ضروری ہے کہ معاملے کی قابل اعتماد عدالتی جانچ کی جائے تاکہ سچ کو منظر عام پر لایا جاسکے اور بے تحاشا استثنیٰ کا کلچر ختم کیا جاسکے۔'
وہیں جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے سرینگر انکاؤنٹر پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا 'حیدر پورہ میں حالیہ انکاؤنٹر کی غیر جانبدارانہ اور قابل اعتماد انکوائری ایک اشد ضرورت ہے۔ وہیں انکاؤنٹر میں مارے گئے لوگوں سے متعلق کئی اہم سوالات اٹھ رہے ہیں۔ '
ساتھ ہی جے کے این سی کے رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ، محمد اکبر لون اور حسنین مسعودی نے آج حیدر پورہ شہری ہلاکتوں کی غیر جانبدارانہ اور وقتی جانچ کا مطالبہ کیا اور سوگوار خاندانوں کے مطالبات کو سنا جائے اور ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔
دوسری جانب پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد غنی لون کا کہنا تھا کہ 'حیدر پورہ تصادم کے حوالے سے جو دعوے منظر عام پر آرہے ہیں اس کے پیش نظر ہم سب کو یہ جاننے کا حق ہے کہ آخر کیا ہوا وہاں اور وہ بھی غیر جانب دارانہ ادارے سے۔'
یہ بھی پڑھیں:
لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے سامنے اپنا مطالبہ رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ 'ایسا نہ پہلی بار ہوا ہے اور نہ ہی آخری بار ہے۔ آپ کے پاس اس وقت موقع ہے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ انسانی جانیں کتنی قیمتی ہیں۔'