جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے سابق عسکریت پسندوں کی پاکستانی بیگمات نے پیر کے روز پریس کالونی میں اپنے مطالبات خاص طور پر سفری دستاویزات کی فراہمی کے لیے احتجاج کیا۔ Pakistani Wives of EX Militants Protest
احتجاج کرنے والی خواتین اپنے بچوں کے ساتھ ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور حکومت سے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے نعرہ بازی کی۔
مصباح نامی ایک احتجاجی خاتون نے کہا کہ ہم نے متعدد دفعہ اس مقام پر اپنے مطالبات کو لے کر احتجاج درج کرایا ہے اور آج بھی ہم ان ہی مطالبات کو لے کر احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح یہاں باقی شہریوں کے حقوق ہیں اسی طرح ہمیں بھی سارے حقوق ملنے چاہیے اور اگر ہمیں حقوق نہیں دئے جا رہے ہیں تو پھر ہمیں واپس پاکستان بھیج دینا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: Former Militants Wifes' PC: ہمیں شہریت نہیں دی جارہی، آخر حکومت چاہتی کیا ہے؟
خاتون نے کہا کہ یہاں پر 370 کنبے ہیں جو زائد از تین ہزار نفوس پر مشتمل ہے جو مختلف مشکلات و مسائل سے دوچار ہیں۔ اور ہم نے اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے لیفٹیننٹ گورنر صاحب سے بھی ملاقات کرچکے ہیں لیکن کسی نے بھی ہمارا مسئلہ حل نہیں کیا۔
خاتون نے یہ بھی کہا کہ اگر حکومت کی ہمیں یہاں لانے کی پالیسی ناکام ہوئی ہے تو انہیں چاہیے کہ ہمیں واپس بھیج دیں کیونکہ یہ ہم لوگوں کی زندگیوں کا سوال ہے اس کے باوجود ہمارے مسئلے کی طرف کوئی توجہ دینے کی زحمت ہی نہیں کر رہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سال 2010 میں عمر عبداللہ کے دور حکومت میں عسکریت پسندوں کی بازآباد کاری پالیسی کے تحت تقریبا ساڑھے چار سو کشمیری جو اسلحہ تربیت کے لیے سرحد پار کر گئے تھے، اپنی بیویوں کے ساتھ واپس وادی کشمیر آئے تھے۔