جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع سے وابستہ ایک شخص دہلی میں اپنے کمسن بیٹے کے ساتھ درماندہ ہوا ہے۔ بیٹا دل کے عارضے میں مبتلا تھا اور ایمز میں کامیاب سرجری کے بعد اسے رخصت کیا گیا ہے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ کشمیر واپس نہیں جاسکتے۔
پلوامہ کی ضلع انتظامیہ نے سوشل میڈیا پر اس کمسن بچے کی حالت زار سے متعلق ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کہا ہے کہ اس بچے کو کشمیر لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
دراصل ابہامہ پلوامہ کا رہائشی نثار احمد ماگرے، اس کمسن بچے کا والد ہے جس نے سوشل میڈیا پر اپنی حالت زار سے متعلق ویڈیو جاری کی جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ چار ماہ کے عرصے سے دہلی میں مقیم ہیں۔ اس دوران انکے بیٹے کی سرجری ایمز میں ہوئی اور حالت میں افاقہ ہونے کے بعد انہیں ہسپتال سے فارغ کیا گیا تاہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ کشمیر واپس نہیں جاسکے۔
یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ضلع انتظامیہ نے کہا کہ وہ نثار اور ان کے بچے کو واپس لانے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔
ضلع ترقیاتی کمشنر ڈاکٹر راگھو لنگر نے کہا کہ 'ہم دو دن کے اندر نثار اور ان کے بچے کو واپس لائیں گے'۔
ماگرے نے کہا کہ انہیں بچے کو صحت مند اور صاف ماحول میں رکھنے کی ہدایت دی گئی تھی لیکن وہ دہلی میں رہ کر ایسا نہیں کرسکتے جسکی وجہ سے انکے بیٹے کی زندگی خطرات سے دوچار ہوئی ہے۔
انکے پاس رقومات بھی ختم ہوگئی ہیں۔
نثار کی آپ بیتی سے معلوم ہوتا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوام کو کس قدر دقتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
نثار کے مطابق 'ایک ایمبولینس ڈرائیور نے ان سے گھر پہنچانے کے لیے 60 ہزار روپے کا مطالبہ کیا۔ جبکہ چند کلومیٹر کی دوری تک جانے کے لیے ان سے ہزاروں رو پے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
حکومت اگرچہ دعویٰ کرتی ہے کہ پسماندہ طبقہ کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن جس طرح کی خبریں موصول ہو رہی ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غریب لوگوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے۔
واضح رہے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 24 مارچ کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اکیس روزہ لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ انہوں نے شام آٹھ بجے اعلان کیا کہ رات کے 12 بجے سے لاک ڈاؤن نافذ ہوگا۔
انتظامیہ اور حکومت کے دعوے اپنی جگہ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر نثار ماگرے کا ویڈیو وائرل نہیں ہوتا تو اس کی مدد کون کرتا؟ اور بھارت میں نثار جیسے سینکڑوں درماندہ افراد ہیں۔ اچانک کیے گیے اعلان کے بعد سینکڑوں افراد درمانده ہو گیے ہیں جو سینکروں کلومیٹر پیدل سفر کرنے پر مجبور ہو گیے ہیں۔