جموں و کشمیر کے ضلع بڈگام میں محکمہ وائلڈ لائف کی محنت اور مشقت کے بعد اس تیندوے کو زندہ پکڑ لیا گیا جو ایک ہفتہ قبل ایک چار سالہ معصوم بچی کو اپنا شکار بنایا تھا۔
چار سالہ بچی کو اپنا شکار بنانے کے بعد محکمہ وائلڈ لائف کی جانب سے بڑے پیمانے پر تیندوے کی تلاش شروع کر دی گئی تھی۔ محکمہ نے ڈی سی بڈگام کے رہائشی علاقے کے سامنے ایک پنجرہ لگایا تھا جس میں یہ تیندوا پھنسا ہے۔
محکمہ نے پہلے ہی یہ دعویٰ کیا تھا کہ 'جس تیندوے نے چار سالہ ادا میر کو شکار بنایا تھا وہ مادہ تیندوا ہے۔'
ادا اپنے مکان کے دیوار بند صحن میں شام کو کھیل رہی تھی جب تیندوے نے اسے اپنا شکار بنایا اور اسے گھسیٹے ہوئے نزدیکی جنگل میں لے گئی۔ لاپتہ ہونے کے فوراً بعد علاقے کے لوگوں نے اسکی تلاش شروع کی۔ صبح گئے گھنی جھاڑیوں میں ادا میر کی لاش پائی گئی۔ خونخوار جانور نے اسکے جسم کا کافی حصہ چٹ کیا تھا۔ مقامی لوگوں نے تیندوؤں کی بڑھتی تعداد کے خلاف مظاہرے کئے جسلکے بعد حکام نے محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے ایک افسر کو معطل کیا۔
علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ سوشل فارسٹری محکمہ نے کئی دہائیاں قبل اس علاقے میں شجرکاری (پلانٹیشن) کی جس کے بعد ایک جنگل معرض وجود میں آیا۔ انکے مطابق یہ جنگل اب وحشی جانوروں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے جو مقامی آبادی کیلئے ایک مسلسل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
بچی کی ہلاکت کے بعد محکمے نے نرسری میں درختوں کی کٹائی کا کام شروع کیا ہے جبکہ کئی تیندوؤں کو پنجروں میں قید کرکے مختلف جنگلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔
محکمہ کا کہنا ہے کہ 'انہوں نے ہاؤسنگ کالونی اومپورہ کی نرسری میں جو سیمپل جمع کئے تھے اس سے ان کو معلوم ہوا تھا کہ یہ مادہ ہے اور جب آج انہوں نے ان سیمپلوں کو پکڑے گئے تیندوے سے ملایا تو وہی مادہ تیندوا نکلی۔'
پکڑے گئے تیندوے کو اب فارینسک جانچ کے لیے بھیجا گیا ہے جہاں پر یہ واضح ہوگا کہ 'کیا یہ وہی آدم خور تیندوا ہے یا نہیں۔'