ضلع پلوامہ میں 12 سو کنال اراضی پر لیونڈر اور دوسرے پھولوں کی کاشت کی جارہی ہے، جس سے ضلع پلوامہ کو سالانہ آمدنی پچاس لاکھ ہوتی ہے۔ وہیں، لیونڈر اور دوسرے پھولوں کو آگانے کے لیے 2 ہزار سے زائد افراد ماہانہ کام کرتے ہیں۔
ضلع پلوامہ میں اگرچہ لوگ مختلف میواجات کی کھیتی کرتے ہیں۔ وہیں، سرکاری سطح پر لیونڈر کی کھیتی کی جارہی ہے جس سے ضلع پلوامہ کے ساتھ ساتھ باقی اضلاع کے لوگوں کو بھی روزگار مہیا ہورہا ہے۔
ضلع کے بونرہ علاقے میں ایک سرکاری فارم چلایا جارہا ہے جہاں پر لیونڈر، روز میری، گلاب جیسے پھول اگائے جاتے ہیں۔
اگرچہ ایک جانب سے نوجوانوں کو اس سرکاری فارم سے روزگار فراہم ہوتا ہے۔ وہیں، دوسری جانب اس فارم سے مختلف اقسام کے پھولوں سے نکلنے والی تیل کو بھیج کر سالانہ پچاس لاکھ تک کی آمدنی ہوتی ہے۔
یہ فارم (Research Council of scientific & industrial) سی ایس آئی آر مشن کے تحت انڈین انسٹیٹیوٹ آفاینٹی گریٹیڈ میڈیسن (IIIM) کی جانب سے چلایا جارہا ہے۔
اس فارم میں میڈیکل اور ارومیٹک پودوں کی تحقیق کی جارہی ہے۔ وہیں، کسانوں تک یہ پودے پہنچانے کے لیے پودوں کو اگایا بھی جاتا ہے، تاکہ چھوڑے کسان اس سے مستفید ہوں۔
لیونڈر سے نکالنے والے تیل سے مختلف اقسام کی مصنوعات تیار کرنے کے لیے اگر ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے تو اس سے ایک بہت بڑی انڈسٹری ابھرکر سامنے آسکتی ہے، جہاں بے شمار لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے۔
لیونڈر (حزام) کے پھولوں اور تیل کی خرید و فروخت نیشنل اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں ہوتی ہے اور اس کی اچھی قمیت ملتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ لیونڈر ایک قسم کی جڑی بوٹی ہے لیونڈر کے پھولوں سے تیل نکالا جاتا ہے جس کو کاسمیٹکس کے علاوہ دواؤں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
لیونڈر کو فنگل انفیکشن، بالوں کے جھڑنے اور زخموں کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس جڑی بوٹی کو جلد اور خوبصورتی کے لیے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور عام طور پر خوشبوؤں اور شیمپو میں استعمال کیا جاتا ہے۔ وہیں، اس کو بیکری اور کھانے کی اشیاء میں ذائقہ بڑھانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
واضح رہے لیونڈر کے پھولوں کو پوری طرح کھلنے میں 8 سے 12 ماہ لگ جاتے ہیں۔ ان کی کاشت صرف ضلع پلوامہ میں ہی نہیں بلکہ کشتواڑ ڈوڈہ کے علاوہ وادی کے مختلف پہاڑی علاقوں میں ہوتی ہے۔ یہ پھول ان علاقوں میں پایا جاتا ہے جہاں موسم سرد رہتا ہے جو لیونڈر کے لیے موزوں موسم ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
اس حوالے سے سینئر سنٹیسٹ انچارج فیلڈ اسٹیشن بونرہ پلوامہ ڈاکٹر شاہد رسول نے بات کرتے ہوئے کہا لیونڈر کی کاشت کے لیے کسی قسم کی ادویات کا استعمال نہیں کرنا پڑتا ہے۔ کسانوں کو بھی روایتی باغبانی سے ہٹ کر دیگر منافہ بخش کاروبار کی طرف توجہ دینی چاہیے، جس میں لیونڈر کی کاشت سب سے بہتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ کسان اگر اپنی باغات میں لیونڈر جیسے پودے لگائیں تو ان کی آمدنی میں دوگنا اضافہ ہوگا۔ وہیں، انہوں نے کہا کہ یہ پودے بغیر کسی خرچے کے اگائے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ لیونڈر کی کاشت کے حوالے سے کسانوں کو جانکاری بھی دی جاتی ہے، تاکہ ان کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے۔