سرینگر:کرناٹک کے اسکولوں اور کالجوں میں حجاب پر پابندی برقرار رہے گی۔کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسلام میں حجاب ضروری عمل نہیں ہے۔ عدالت عالیہ نے اسکولوں میں یونیفارم کے سلسلے میں ریاستی حکومت کے حکم نامے کو درست قرار دیا ہے۔
اس حوالے سے مسلم تنظیموں اور دیگر مذہبی رہنماؤں نے اس فیصلے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔ادھر جموں وکشمیر کے سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنماؤں اور جماعتوں نے بھی کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے مایوس کن اور حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اس فیصلے کے ردعمل میں متحدہ مجلس علماء جموں وکشمیر جس کی قیادت نظر بند رکھے گئے میرواعظ ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق کررہے ہیں نے مسلم طالبہ کے حوالے سے حجاب کے معاملے پر کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ” کہ حجاب اسلام کا لازمی جز نہیں“ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس فیصلے کو نہ صرف حد درجہ افسوسناک قرار دیا ہے بلکہ اس اقدام کو مسلم پرسنل لاء میں براہ راست مداخلت سے تعبیر کیا ہے۔
بیان میں یہ بات واضح کی گئی کہ اگرچہ دین اسلام میں مسلم خواتین کے لیے حجاب اور پردہ لازمی جز اور قرآنی حکم ہے،تاہم اس کے استعمال پر کوئی زور زبردستی بھی نہیں ہے اور جو مسلم طالبہ حجاب اور پردے کا اہتمام کرکے اپنے علمی سفر کو جاری رکھتی ہیں وہ نہ صرف قابل تقلید اور ستائش ہے بلکہ ان کے اس فیصلے اور عمل کا احترام کیا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:حجاب اسلام کا لازمی جز ہے یا نہیں؟
مجلس نے کہا کہ کورٹ کے اس یک طرفہ فیصلے سے مسلم طالبہ جو حجاب اور پردے کے اہتمام کے ساتھ حصول علم کے زیور سے آراستہ ہونا چاہتی ہے ان کی تعلیم بری طرح متاثر ہو سکتی ہے اور اس طرح ملک و قوم کی بہت ساری بیٹیاں تعلیم کے نور سے محروم رہ سکتی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ فاضل جج صاحبان کا دین اسلام اور اس کے مبادیات کے تئیں مطالعہ ناقص اور گمراہ کن ہیں۔ لہٰذا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی قیادت کو چاہیے کہ وہ کرناٹک عدالت کے اس فیصلے کو بھارت کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ میں چیلنج کرکے حق و انصاف کے حصول اور سچائی کی بالادستی کے لیے قدم اٹھائے۔
مزید پڑھیں:
بیان میں مزید کہا گیا کہ کچھ عرصے سے ایسا محسوس کیا جارہا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے حقوق اور ان کے پرسنل لاء میں بے جا مداخلت کرکے بھارت کی سب سے بڑی اقلیت کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں جو قابل مذمت ہیں۔