ایک ایسا بھی دور تھا جب وادیٔ کشمیر Kashmir Valley کی کوئی بھی پرکشش عمارت رعنا واری ٹائلز Rainawari Tiles کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی۔ دستگیر صاحب کی زیارت ہو، تاریخی جامع مسجد Historical Jama Masjid ہو یا کوئی سرکاری عمارت، سبھی میں رعنا واری ٹائلز کا استعمال ہوتا تھا۔ تاہم آج ان ٹائلز کو بنانے والے کاریگر بمشکل دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر رہے ہیں۔
سرینگر شہر کے خانیار علاقے کے رہنے والے حاجی غلام محمد کمار کی عمر 75 برس ہے اور وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے مٹی کے برتن، ٹائلز اور دیگر سامان بناتے ہیں۔
غلام محمد پہلے شخص نہیں ہیں جو اس کام کے ساتھ وابستہ ہیں بلکہ اُن کے خاندان میں نسل در نسل یہ کام ہوتا چلا آرہا ہے۔
غلام محمد کمار نے بتایا کہ 'ایک وقت تھا کہ جب اس علاقے کے تمام 60 کنبے یہ کام کرتے تھے۔ تاہم اب صرف چند افراد ہی اس کام سے وابستہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وادی کی تاریخی عمارتوں Jammu and Kashmir Historical Places کے علاوہ کئی سیاستدانوں کی رہائش گاہوں کی زینت بھی ان ٹائلز سے ہوئی ہے اور آج ہم انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنی فریاد وقت کے تمام حکمرانوں کے سامنے رکھی تاہم مشکلات کا ازالہ نہیں ہوسکا۔
غلام محمد نے مزید کہا کہ انہوں نے شیخ محمد عبداللہ سے لے کر محبوبہ مفتی تک سب کے سامنے اپنی مشکلات اور پریشانیوں کا تزکرہ کیا۔ یقین دہانیاں بھی لیں لیکن عملی طور اس طبقے کی بہتری کیلئے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔
غلام محم کمار جو خود بھی تعلیم یافتہ ہیں کا ماننا ہے کہ 'اگر انتظامیہ ہمیں زمین اور چند دیگر سہولیات فراہم کریں تو اس کام میں دوبارہ جان آجائے گی۔ اس کام میں زیادہ منافع نہیں ہوتا بس روز مرہ کے خرچ پورے ہو پاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'اتنی آمدنی نہیں ہوتی کی ہم کہیں زمین خرید کر کارخانہ جاری کر سکیں۔ ٹالز کے آرڈر آج بھی ملتے ہیں لیکن زیادہ پورے نہیں ہو پاتے وجہ یہی ہے کہ ہماری مشکلات کا ازالہ نہیں ہو رہا۔
غلام محمدکا مزید کہنا ہی کہ 'ایک بار نمائش میں انہوں نے اپنی بنائی گئی ٹائلز رکھی تھی اور ممبئی کے ایک شخص نے تقریباً 400 ٹائلز دگنی قیمت پر خریدی تھیں۔ جب غلام محمد نے وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ بمبئی ایئر پورٹ پر یہ ٹائلز لگیں گے۔
غلام محمد کمار آج بھی لوگوں کو اسی اُمید کے ساتھ اپنا فن سکھاتے ہیں کہ اُن کا وراثتی کام ایک بار پھر عروج پر ہو اور لوگوں کو سرکاری نوکریوں کے پیچھے نہ دوڑنا پڑے۔