الیکٹرک کام کے دوران کئی افراد جھلس جاتے ہیں تو کئی کی موت بھی ہوجاتی ہے پھر بھی یہ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر بجلی سپلائی کو یقینی بناتے ہیں لیکن ان کو نہ صحیح اجرت ملتی ہے نہ ہی مستقل ملازمت۔
گلزار احمد اور بلال احمد بجلی محکمہ کے ان سینکڑوں افراد میں سے ہیں جن کا محکمہ میں کوئی نام نہیں بلکہ انہیں یومیہ مزدور کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ 30 برس کے گلزار احمد سنہ 2011 سے مستقل نوکری کے منتظر ہیں اور اس دوران بجلی کی تار کی مرمت کرتے ہوئے جھلس بھی چکے ہیں۔
اس کے علاوہ 28 برس کے بلال احمد بجلی پول سے گر گئے تھے اور گزشتہ ایک ماہ سے بستر پر ہیں۔ ان کا سہارا اب بیوی کی روزانہ کی کمائی ہے۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں تقریباً 15 ہزار کے قریب ڈیلی ویجر اور نیڈ بیسس ورکر بجلی محکمہ میں کام کررہے ہیں لیکن برسوں سے یہ مستقل نوکری یا اجرت کے لیے جدو جہد کررہے ہیں۔ ان کے مطابق تقریباً دو سو افراد کھمبوں سے گر کر یا بجلی کرنٹ سے فوت ہوگئے۔
مرمت کے دوران محکمہ انہیں سیفٹی کٹ بھی فراہم نہیں کرتا ہے جس سے ان کی جان کو مزید خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
ان ہزاروں ورکرز کو سابقہ حکومتوں نے یکسر نظر اندز کیا ہے۔ نہ انہیں تنخواہ صحیح سے ملتی ہے اور نہ ہی انہیں مستقل کرنے کے لیے کوئی پالسی ترتیب دی گئی۔
ورکزر کا کہنا ہے انہیں معاوضہ، مستقل نوکری اور انشورنس کے دائرے میں لایا جائے۔
غور طلب ہے کہ گزشتہ روز جموں و کشمیر انتظامیہ نے ان افراد کی مستقلی کے لیے ایک مسودہ پالیسی ترتیب دی ہے جس کے بعد اب ان ورکرز کی امیدیں مزید روشن ہوگئی ہیں۔