سرینگر : ہائی کورٹ آف جموں و کشمیر اور لداخ نے ایک سرکاری کالج میں کام کرنے والے اسسٹنٹ پروفیسر کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت درج مقدمہ کو منسوخ کرنے سے انکار کر دیا۔ پروفیسر پر مبینہ طور پر شہریوں کو ریاست کے خلاف طاقت کے استعمال پر اکسانے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
جسٹس سنجے دھر کی سربراہی میں بنچ نے پولیس کی طرف سے پیش کی گئی ویڈیو کی جانچ کی، جس کے بعد عدالت نے فیصلہ دیا کہ پروفیسر، جس کی شناخت عبدالباری نائیک کے نام سے ہوئی ہے، مبینہ طور پر جموں و کشمیر کے رہائشیوں اور بھارت کے دیگر حصوں میں رہنے والوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔
بینچ نے یہ بھی نوٹ کیا کہ پروفیسر عسکریت پسندی اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے ساتھ مبینہ طور پر ہمدردی رکھتا ہے۔ عبدالباری نائیک پر مبینہ طور پر کالج کے طلباء کو تحریک دینے کا الزام لگایا گیا تھا جس میں وہ انتظامیہ کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور علاقے میں امن و سکون کو خراب کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
بنچ نے مشاہدہ کیا کہ 'معاملے کی تحقیقات کے دوران ضبط کیے گئے ویڈیو کلپس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ درخواست گزار سامعین کو بتا رہا ہے کہ کشمیری طلبہ کو ملک کے دیگر حصوں میں لنچ اور وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے'۔
عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ایک ویڈیو کلپس میں، نائیک لوگوں کو بتاتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ بھارتی فوج لوگوں کی نقل و حرکت میں 'روک' ڈال رہی ہے اور بچوں کو اسکول جانے سے 'روک' رہی ہے۔
عدالت نے کہا، 'ایک اور ویڈیو کلپ میں، عرضی گزار ایک ایسے شخص کی رہائی سے متعلق دلیل پیش کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے جو پتھر بازی اور عسکریت پسندی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں زیر حراست تھا'۔
یہ بھی پڑھیں: Farooq Abdullah on JK Voter List فاروق عبداللہ نے عوام سے ووٹر لسٹ میں نام درج کرانے کی اپیل کی