ہر برس دو دسمبر کو عالمی یوم معذور دیوس منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر پوری دنیا میں معذوروں کو ہو رہی مشکلات کے حوالے سے عوام میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے آج سرینگر کے رائل اسپرنگ گولف کورس میں بھی ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا، جہاں وادی کے معروف سماجی کارکنان نے اپنے خیالات پیش کیے۔
معذوری صرف جسمانی نہیں ہوتی ذہنی بھی ہو سکتی ہے۔ اسی تھیم پر غیر سرکاری تنظیم آٹزم ویلفیئر ٹرسٹ نے 'لرننگ ایج' کے اشتراک سے بیداری پیدا کرنے کے لیے اس پروگرام کا انعقاد کیا۔
بچے میں کسی بھی قسم کی معذوری ہوتی ہے تو ماں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ای ٹی وی بھارت نے ایسی دو ماؤں سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ 'کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بچوں کی باتوں کو بھی سمجھنا پڑتا ہے اور اگر گھر والوں کا ساتھ نہ ہو تو مشکلات کافی بڑھ جاتی ہیں۔'
تحسین ظہور جن کے دو بچے آٹزم کا شکار ہیں، ان کا کہنا ہے کہ 'میں نے اپنے بچوں کے خاطر کئی راتیں ہسپتال میں گزاری ہیں۔ ایک کروڑ سے زائد خرچہ بھی برداشت کرنا پڑ گیا۔ میں بس اتنا چاہتی ہوں کہ میرے بچے اپنی ٹانگوں پر خود کھڑے ہو پائے۔'
ان کا مزید کہنا ہےکہ 'اگر میرے شوہر اور گھر والوں کا ساتھ نہ ہوتا تو میرے لئے شاید یہ سب آسان نہیں ہوتا۔ خود کو خوش قسمت مانتی ہوں اور مجھے پتا ہے اس کا اجر دوسری دنیا میں ہمیں ضرور ملے گا۔'
وہیں ایسی ہی دوسری ماں ارم کا کہنا ہے کہ 'میں نے کبھی اپنے بیٹے کو غیر معمولی نہیں مانا۔ وہ ایک معمولی بچہ ہے، بس اس کا تھوڑا زیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے۔ بچے چلاتے ہیں تو لوگ ان کے ہاتھوں میں فون یا ٹی وی کے سامنے بٹھا دیتے ہیں، یہ بالکل غلط ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ان کو ہم اپنے ہر روز مرہ کے کام میں جوڑے۔ تاکہ وہ خود کفیل ہو کر دنیا اور سماج میں اپنی جگہ بنا پائے۔'
ان کی شکایت تھی کہ 'وادی کشمیر میں ایسے بچوں کے لئے اسکول نہیں ہے اور اکثر لوگ ان سے دوری بنائے رکھتے ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'ایک تو یہاں صرف ایک ہی اسکول ہے جو ایسے بچوں کو داخلہ دیتا ہے۔ یہاں کے نامی گرامی اسکول ایسے بچوں کی طرف دیکھتے ہی نہیں۔ ڈاکٹر کی بات کریں تو آٹزم کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جب والدین اپنے بچوں کو ریگولر چیک کے لئے ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں تو ڈاکٹر بہت ساری چیزوں کو نظر انداز کرتے ہیں جبکہ انہیں ان نشانیوں کو واضح طور پر والدین کو سمجھانا چاہئے تاکہ وہ بھی وقت رہتے اپنے بچوں کی صحیح طریقے سے دیکھ بھال کرنا شروع کر سکیں۔'
وہیں فائقہ چودھری جو کافی عرصے سے آٹزم بچوں اور ان کے والدین کی کاؤنسلنگ کر رہی ہیں، کا ماننا ہے کہ 'ہم خالی والدین کی باتوں پر اعتبار نہیں کرتے، بچوں کی ذہنیت کا بھی جائزہ لیتے ہیں، اس کے بعد جیسی ضرورت ہوتی ہے اس طریقے کے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ یہ بچے خاص ہیں اس لیے کیونکہ ان کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔'
ان کا کہنا ہے کہ 'کئی معاملے ایسے بھی تھے، جس میں ایسے بچوں کی پیدائش پر ان کی والدہ کو کوسہ جاتا ہے، پیٹا جاتا ہے، مارا جاتا ہے۔ یہ زمینی حقیقت ہے کشمیر کی۔ ہم ان بچوں کے اہل خانہ سے ملتے ہیں اور انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔'
آٹزم ویلفیئر ٹرسٹ کی مینیجر عظمی نثار بخش نے اعتراف کیا کہ 'ہر برس ہم عالمی یوم معذور کے دن عوام میں بیداری لانے کی کوشش کرتے ہیں تاہم زمینی حقائق نہیں بدلتے۔ انہیں امید ہے کہ آنے والے دنوں میں کافی کچھ بدلے گا۔
وہیں اس موقع پر قوت گویائی سے محروم فنکار سہیل کی بنائی گئی پینٹنگ کی نمائش بھی کی گئی۔