ETV Bharat / city

گجرات: کشمیری نوجوان بارہ برس بعد باعزت بری

اس دوران جہاں وہ ہر روز جیل میں رہ کر اپنی رہائی کے لیے دعا کر رہے تھے۔ وہیں ان کی دو بہنوں کی شادی بھی اس دوران ہوگئی، سنہ 2017 میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اور ان کے زندگی کے بارہ برس جیل کی چار دیواری کے نذر ہوگئے-

kashmiri man released_after_12_years
بارہ سالوں کے بعد باعزت بری
author img

By

Published : Jun 29, 2021, 11:04 PM IST

Updated : Jun 30, 2021, 1:01 PM IST

سرینگر علاقہ کے رہنے والے 44 سالہ بشیراحمد بابا عرف اعجاز بابا۔ سنہ دو 2010 کا وہ سال تھا ۔جب انہیں گجرات اینٹی ٹررازم اسکارڈ ( اے ٹی ایس) نے گرفتار کیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ عسکری پسند تنظیم حزب المجاہدین کے نیٹ ورک کو توسیع کرنے کے غرض سے نوجوانوں کی بھرتی کر رہے ہیں۔ مسلسل سماعت کے بعد احمد آباد سیشن کورٹ نے ان کو گزشتہ ہفتے باعزت بری کردیا۔ جس کے بعد وہ آج دوبارہ اپنے عزیزوں کے ساتھ اپنے گھر پر ہیں۔

ویڈیو

اس دوران جہاں وہ ہر روز جیل میں رہ کر اپنی رہائی کے لیے دعا کر رہے تھے۔ وہیں ان کی دو بہنوں کی شادی بھی اس دوران ہوگئی، سنہ 2017 میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اور ان کے زندگی کے بارہ برس جیل کی چار دیواری کے نذر ہوگئے-

اگرچہ وہ جیل میں اس جرم کی سزا کاٹ رہے تھے جو انہوں نے کبھی کیا ہی نہیں ۔تاہم ہر صبح اس امید کے ساتھ اٹھتے تھے آئندہ سماعت کے دوران ان کی رہائی کا اعلان ہوگا ۔ اور میں دوبارہ اپنے گھر لوٹ جاؤں گا۔ انہوں نے اس دوران ایک دو نہیں بلکہ تین مضامین میں پوسٹ گریجویشن حاصل کی۔ گرفتار ہونے سے قبل وہ سرینگر میں ایک کمپیوٹر ٹیچنگ سنٹر چلانے کے علاوہ ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ منسلک تھے۔ ان کی والدہ جن کی آنکھوں سے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ ہر روز اپنے گھر کے دروازے پر اپنے بیٹے کی راہ دیکھا کرتی تھیں۔ میرا بیٹا یہیں سے گھر کے اندر داخل ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ دعا کرتی تھیں جس حالت میں میرے بیٹے کو گرفتار کیا گیا اور اسی حالت میں مجھے واپس لوٹا دے۔بابا کے چھوٹے بھائی نذیر احمد کی زندگی بھی اپنے بھائی کے گرفتاری کے بعد کافی بدل گئی۔ بڑے بھائی کے جانے کے بعد گھر کی ساری ذمہ داری ان پر آگئی۔

والدین کی طبیعت ناساز رہنے لگی ۔ اور دو بہنوں کی ذمہ داری بھی ان کے کندھوں پر آگئی تھی۔ نذیر ایک دکان میں سیلز مین کے طور پر کام کرتے تھے۔ اور بھائی کی رہائی کے لئے مقدمہ لڑنے کے لیے پیسے جمع کر نے لگے ۔انہوں نے اپنی پشتینی جائیداد بھی فروخت کردیا ۔ والد کا انتقال کینسر کی وجہ سے ہو گیا۔ والدہ اور بھائی کا دعوی ہے کہ وہ جیل میں بشیر سے صرف ایک دو مرتبہ ہی مل پائے ۔ وہیں بشیر کا کہنا ہے کہ ان کو ‏ہائی سیکورٹی جیل میں رکھا گیا تھا۔ اور اسی لیے ان کی سماعت آن لائن ہی ہوا کرتی تھی۔

ہائی سکیورٹی جیل میں ہونے کی وجہ سے دیگر قیدیوں کی تنقید اور طعنوں کا نشانہ انہیں نہیں بننا پڑا۔ لیکن گرفتاری کے بعد پولیس کی جانب سے ان کے ساتھ مار پیٹ ہوئی۔بشیر گرفتاری سے ان کی رہائی تک کے سفر میں ہمیشہ ساتھ رہے ان کے وکیل جاوید احمد خان پٹھان کا انتقال بھی ان کی رہائی کے حکم سے تقریبا دس دن قبل ہوگیا۔

مزید پڑھیں :بنگلور ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ حملہ میں حبیب میاں 4 سال بعد باعزت بری



بشیر کا کہنا ہے کہ وکیل صاحب جب میرے والد غلام محمد بابا کی وفات کے وقت میرے گھر آئے ۔اور انہیں جب ہماری مالی حالت کا پتہ چلا تو اس کے بعد انہوں نے میرا کیس بنا کسی فیس کے لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ اللہ ان کو جنت نصیب کرے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ میری رہائی نہیں دیکھ پائے۔ عدالت کا فیصلہ آنے سے دس دن قبل ہی ان کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔

سرینگر علاقہ کے رہنے والے 44 سالہ بشیراحمد بابا عرف اعجاز بابا۔ سنہ دو 2010 کا وہ سال تھا ۔جب انہیں گجرات اینٹی ٹررازم اسکارڈ ( اے ٹی ایس) نے گرفتار کیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ عسکری پسند تنظیم حزب المجاہدین کے نیٹ ورک کو توسیع کرنے کے غرض سے نوجوانوں کی بھرتی کر رہے ہیں۔ مسلسل سماعت کے بعد احمد آباد سیشن کورٹ نے ان کو گزشتہ ہفتے باعزت بری کردیا۔ جس کے بعد وہ آج دوبارہ اپنے عزیزوں کے ساتھ اپنے گھر پر ہیں۔

ویڈیو

اس دوران جہاں وہ ہر روز جیل میں رہ کر اپنی رہائی کے لیے دعا کر رہے تھے۔ وہیں ان کی دو بہنوں کی شادی بھی اس دوران ہوگئی، سنہ 2017 میں ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ اور ان کے زندگی کے بارہ برس جیل کی چار دیواری کے نذر ہوگئے-

اگرچہ وہ جیل میں اس جرم کی سزا کاٹ رہے تھے جو انہوں نے کبھی کیا ہی نہیں ۔تاہم ہر صبح اس امید کے ساتھ اٹھتے تھے آئندہ سماعت کے دوران ان کی رہائی کا اعلان ہوگا ۔ اور میں دوبارہ اپنے گھر لوٹ جاؤں گا۔ انہوں نے اس دوران ایک دو نہیں بلکہ تین مضامین میں پوسٹ گریجویشن حاصل کی۔ گرفتار ہونے سے قبل وہ سرینگر میں ایک کمپیوٹر ٹیچنگ سنٹر چلانے کے علاوہ ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ منسلک تھے۔ ان کی والدہ جن کی آنکھوں سے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ ہر روز اپنے گھر کے دروازے پر اپنے بیٹے کی راہ دیکھا کرتی تھیں۔ میرا بیٹا یہیں سے گھر کے اندر داخل ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ دعا کرتی تھیں جس حالت میں میرے بیٹے کو گرفتار کیا گیا اور اسی حالت میں مجھے واپس لوٹا دے۔بابا کے چھوٹے بھائی نذیر احمد کی زندگی بھی اپنے بھائی کے گرفتاری کے بعد کافی بدل گئی۔ بڑے بھائی کے جانے کے بعد گھر کی ساری ذمہ داری ان پر آگئی۔

والدین کی طبیعت ناساز رہنے لگی ۔ اور دو بہنوں کی ذمہ داری بھی ان کے کندھوں پر آگئی تھی۔ نذیر ایک دکان میں سیلز مین کے طور پر کام کرتے تھے۔ اور بھائی کی رہائی کے لئے مقدمہ لڑنے کے لیے پیسے جمع کر نے لگے ۔انہوں نے اپنی پشتینی جائیداد بھی فروخت کردیا ۔ والد کا انتقال کینسر کی وجہ سے ہو گیا۔ والدہ اور بھائی کا دعوی ہے کہ وہ جیل میں بشیر سے صرف ایک دو مرتبہ ہی مل پائے ۔ وہیں بشیر کا کہنا ہے کہ ان کو ‏ہائی سیکورٹی جیل میں رکھا گیا تھا۔ اور اسی لیے ان کی سماعت آن لائن ہی ہوا کرتی تھی۔

ہائی سکیورٹی جیل میں ہونے کی وجہ سے دیگر قیدیوں کی تنقید اور طعنوں کا نشانہ انہیں نہیں بننا پڑا۔ لیکن گرفتاری کے بعد پولیس کی جانب سے ان کے ساتھ مار پیٹ ہوئی۔بشیر گرفتاری سے ان کی رہائی تک کے سفر میں ہمیشہ ساتھ رہے ان کے وکیل جاوید احمد خان پٹھان کا انتقال بھی ان کی رہائی کے حکم سے تقریبا دس دن قبل ہوگیا۔

مزید پڑھیں :بنگلور ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ حملہ میں حبیب میاں 4 سال بعد باعزت بری



بشیر کا کہنا ہے کہ وکیل صاحب جب میرے والد غلام محمد بابا کی وفات کے وقت میرے گھر آئے ۔اور انہیں جب ہماری مالی حالت کا پتہ چلا تو اس کے بعد انہوں نے میرا کیس بنا کسی فیس کے لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ اللہ ان کو جنت نصیب کرے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ میری رہائی نہیں دیکھ پائے۔ عدالت کا فیصلہ آنے سے دس دن قبل ہی ان کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔

Last Updated : Jun 30, 2021, 1:01 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.