ETV Bharat / city

تانبے کی قدیم صنعت ختم ہونے کے دہانے پر کیوں؟

author img

By

Published : Aug 26, 2021, 6:48 PM IST

Updated : Aug 26, 2021, 8:16 PM IST

شاہمدان (رح) کے دور سے ہی وادی کشمیر خاص کر سرینگر کے پرانے شہر جسے ڈاون ٹاون کے نام سے بھی جانا جاتا ہے میں پشمینہ سازی، قالین بافی، سوزنی، پیر ماشی اور ووڈ کارونگ وغیر کے علاوہ چاندی اور تانبے کے برتن بنانے کام کیا جارہا ہے۔

coper industry
کاپر صنعت

کشمیر میں دستکاری کی صنعت اتنی ہی پرانی ہے جتنی تقریبا یہاں کی اسلامی تاریخ ہے۔ 1372 عیسوی میں جب امیر کبیر میر سید علی ہمدانیؒ ہمدان شہر سے اسلام کی اشاعت کے لیے کشمیر آئے تھے تو انہوں نے نومسلم آبادی کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے دستکاری کی جانب راغب کیا تھا۔ تب سے یہاں پر دستکاری صنعت کی داغ بیل پڑی۔

کاپر صنعت

ایک زمانے میں پرانے شہر کی آبادی کا بیشتر حصہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور مختلف دستکاری صنعتوں سے ہی جڑا ہوا تھا لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے یہ دستکاری صنعتیں زوال پذیر ہو رہی ہیں۔ البتہ دیگر دستکاری صنعتوں کے مقابلے ہاتھ سے بنائے جانے والے تانبے کے برتن کی یہ صنعت اگرچہ کسی حد تک محفوظ تھی لیکن مشینوں کے عمل دخل سے اب اس پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ رعناواری علاقے میں کئی یونٹوں میں اب مشینوں کے ذریعے تانبے کے برتن تیار کئے جاتے ہیں جس وجہ سے ہاتھ سے تانبے کے برتن بنانے والے ان کاریگروں کا کام بے حد متاثر ہو رہا ہے۔

جموں و کشمیر میں مشین سے تانبے کے برتن تیار کرنے پر کاپر یوٹنسلز مشین ایکٹ کے تحت مکمل پابندی عائد ہے۔ سال 2006 میں مشین سے تانبے کے برتنوں کی تیاری کو روکنے کے لیے اس وقت کی حکومت نے قانون کو بنایا تھا۔ ابتدا میں خلاف ورزی کے مرتکب افراد پر قانون کے تحت کارروائی بھی عمل میں لائی گئی تھیں لیکن اب دور حاضر میں متعلقہ محکمہ مزکورہ ایکٹ کو جیسے بھول ہی گیا ہے کیونکہ عمل درآمد نہ ہونے کے سبب آئے روز مشین یونٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

کاپر ٹریڈ یونین کے صدر محمد یوسف ککرو کہتے ہیں کہ متعلقہ محکمے اور ضلع انتظامیہ کے اعلی افسران کی توجہ بارہا اس سنگین مسئلے کی طرف مبزول کرانے کے باوجود کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی ہے۔

تانبے کے برتن کی دوکانوں میں ہاتھ اور مشین سے تیار کیے گئے دونوں اقسام کے برتن فروخت کیے جاتے ہیں۔ جو کہ ڈیزائن اور صفائی کے اعتبار سے حوبحو ہوتے ہیں، ایسے میں برتن خریدتے وقت صارف کے لیے ہاتھ سے بنے اور مشین سے تیار کیے گئے کسی بھی برتن کو پہنچانا مشکل ہی نہیں ہے بلکہ نا ممکن ہے۔ ایسے میں بہ آسانی ہاتھ کے نام پر مشین میڈ تانبے کے برتن صارف کو فروخت کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملیے سات سالہ شطرنج کے چمپیئن سے

تانبے کے برتن کا کاروبار کرنے والے اکثر تاجر بھی مشین سے تانبے کے برتن کے تیاری یونٹوں کی بڑھتی تعداد سے کافی فکرمند نظر آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے متعلقہ محکمے کی عدم توجہ کے باعث ہی اب تانبے کی اصل صنعت آہستہ آہستہ زوال پزیر ہو رہی ہے۔

بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامیہ خاص کر ڈی آئی سی سرینگر تانبے کی اس قدیم صنعت کو بچانے کے لیے اہم اور کارگر اقدامات اٹھائے ورنہ دیگر دستکاری صنعتوں کی طرح نہ صرف اس کا وجود ختم ہو جائے گا بلکہ اس سے جڑے ہزاروں افراد کا روزگار بھی چھن جائے گا۔

کشمیر میں دستکاری کی صنعت اتنی ہی پرانی ہے جتنی تقریبا یہاں کی اسلامی تاریخ ہے۔ 1372 عیسوی میں جب امیر کبیر میر سید علی ہمدانیؒ ہمدان شہر سے اسلام کی اشاعت کے لیے کشمیر آئے تھے تو انہوں نے نومسلم آبادی کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے دستکاری کی جانب راغب کیا تھا۔ تب سے یہاں پر دستکاری صنعت کی داغ بیل پڑی۔

کاپر صنعت

ایک زمانے میں پرانے شہر کی آبادی کا بیشتر حصہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور مختلف دستکاری صنعتوں سے ہی جڑا ہوا تھا لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے یہ دستکاری صنعتیں زوال پذیر ہو رہی ہیں۔ البتہ دیگر دستکاری صنعتوں کے مقابلے ہاتھ سے بنائے جانے والے تانبے کے برتن کی یہ صنعت اگرچہ کسی حد تک محفوظ تھی لیکن مشینوں کے عمل دخل سے اب اس پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ رعناواری علاقے میں کئی یونٹوں میں اب مشینوں کے ذریعے تانبے کے برتن تیار کئے جاتے ہیں جس وجہ سے ہاتھ سے تانبے کے برتن بنانے والے ان کاریگروں کا کام بے حد متاثر ہو رہا ہے۔

جموں و کشمیر میں مشین سے تانبے کے برتن تیار کرنے پر کاپر یوٹنسلز مشین ایکٹ کے تحت مکمل پابندی عائد ہے۔ سال 2006 میں مشین سے تانبے کے برتنوں کی تیاری کو روکنے کے لیے اس وقت کی حکومت نے قانون کو بنایا تھا۔ ابتدا میں خلاف ورزی کے مرتکب افراد پر قانون کے تحت کارروائی بھی عمل میں لائی گئی تھیں لیکن اب دور حاضر میں متعلقہ محکمہ مزکورہ ایکٹ کو جیسے بھول ہی گیا ہے کیونکہ عمل درآمد نہ ہونے کے سبب آئے روز مشین یونٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

کاپر ٹریڈ یونین کے صدر محمد یوسف ککرو کہتے ہیں کہ متعلقہ محکمے اور ضلع انتظامیہ کے اعلی افسران کی توجہ بارہا اس سنگین مسئلے کی طرف مبزول کرانے کے باوجود کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی ہے۔

تانبے کے برتن کی دوکانوں میں ہاتھ اور مشین سے تیار کیے گئے دونوں اقسام کے برتن فروخت کیے جاتے ہیں۔ جو کہ ڈیزائن اور صفائی کے اعتبار سے حوبحو ہوتے ہیں، ایسے میں برتن خریدتے وقت صارف کے لیے ہاتھ سے بنے اور مشین سے تیار کیے گئے کسی بھی برتن کو پہنچانا مشکل ہی نہیں ہے بلکہ نا ممکن ہے۔ ایسے میں بہ آسانی ہاتھ کے نام پر مشین میڈ تانبے کے برتن صارف کو فروخت کیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملیے سات سالہ شطرنج کے چمپیئن سے

تانبے کے برتن کا کاروبار کرنے والے اکثر تاجر بھی مشین سے تانبے کے برتن کے تیاری یونٹوں کی بڑھتی تعداد سے کافی فکرمند نظر آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے متعلقہ محکمے کی عدم توجہ کے باعث ہی اب تانبے کی اصل صنعت آہستہ آہستہ زوال پزیر ہو رہی ہے۔

بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ انتظامیہ خاص کر ڈی آئی سی سرینگر تانبے کی اس قدیم صنعت کو بچانے کے لیے اہم اور کارگر اقدامات اٹھائے ورنہ دیگر دستکاری صنعتوں کی طرح نہ صرف اس کا وجود ختم ہو جائے گا بلکہ اس سے جڑے ہزاروں افراد کا روزگار بھی چھن جائے گا۔

Last Updated : Aug 26, 2021, 8:16 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.