ETV Bharat / city

حکومت ہند کی کشمیری صحافیوں کی اظہار رائے کی آزادی پر قابو کرنے کی کوشش - ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کشمیری صحافیوں پر ردعمل

حقوق انسانی کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جموں و کشمیر کی پولیس کی جانب سے فوٹو جرنسلٹ مسرت زہرہ کے خلاف غیرقانونی سرگرمیوں کے انسداد کے قانون(یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کرنے اور صحافی پیرزادہ عاشق پر غلط اطلاع پھیلانے کا الزام میں تحقیقات کرنے پر کہا ہے کہ یہ حکام کی جانب سے اظہار رائے کی آزادی کے حق پر قابو پانی کی کوشش ہے۔

حکومت ہند کی کشمیری صحافیوں کی اظہار رائے کی آزادی پر قابو کرنے کی کوشش
حکومت ہند کی کشمیری صحافیوں کی اظہار رائے کی آزادی پر قابو کرنے کی کوشش
author img

By

Published : Apr 21, 2020, 10:16 PM IST

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اویناش کمار نے جموں وکشمیر پولیس نے فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرہ کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں کے انسداد ایکٹ (یو اے پی اے) کا مقدمہ درج کرنے اور صحافی پیرزادہ عاشق کے خلاف بھی 'غلط اطلاع' پھیلانے کے الزام میں تحقیقات شروع کرنے والی خبر پر ردعمل ظاہر کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر کے صحافیوں کے خلاف پولیس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر اور ان کے خلاف تحقیقی کارروائی کرنا اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ حکم ان صحافیوں کی اظہار رائے کے حق کی آزادی پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے۔ یو اے پی اے جیسے قانون کے ذریعہ صحافیوں کو ہراساں اور دھمکانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

کشمیر میں عام طور پر لاک ڈاؤن، انٹرنیٹ کی رفتار پر طویل پابندی کرنا، بغیر کسی دستاویزات کے صوابدیدی نظربند کرکے ہمیشہ دنیا سے کشمیر کا رابطہ ختم کیا جاتا رہا ہے،اس سے کشمیری عوام کی انسانی حقوق کی ضمانتوں کو سخت نقصان پہنچا ہے اور وہ بھارت اور دنیا بھر کے لوگوں کو جاننے کے حق سے محروم رہے ہیں۔

کشمیر میں صحافیوں کو پولیس اسٹیشن میں طلب کیا گیا ہے اور اپنی کہانیوں کو بیان کرنے کے لئے خود کو تھانے میں پیش کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ پیرزادہ عاشق کے معاملے میں ان سے کہا گیا کہ وہ خود کو متعلقہ پولیس افسر کے سامنے پیش کرنے کے لئے 40 کلو میٹر کا سفر طے کریں۔

پیرزادہ عاشق نے ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا "اگست 2019 کے بعد سے یہ دوسرا واقعہ ہے جب پولیس نے مجھے طلب کیا اور پوچھ گچھ کی ہے۔

اس بار انہوں نے میری دو کہانیوں کے بارے میں پوچھ گچھ کی ایک کشمیر اور جموں میں کووڈ 19 کے بارے اور دوسرا جنوبی کشمیر میں دو عسکریت پسندوں کے قتل پر ، جنھیں شمالی کشمیر کے بارہمولہ میں دفن کیا گیا تھا۔ مجھ سے اس رپورٹنگ کے بارے میں پوچھا گیا جس میں عسکریت پسندوں کے اہل خانہ نے دعوی کیا گیا تھا کہ ان کے لاشوں کو لانے کے لیے سفر کی اجازت دی گئی تھی لیکن بعد میں انہیں اجازت دینے سے انکار کردیا گیا تھا۔

سری نگر کے سائبر پولیس اسٹیشن کے کشمیر زون کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں دونوں صحافیوں کے خلاف کیے گئے مقدمات کو جواز پیش کیا۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ مسرت زہرہ کی اشتعال انگیز پوسٹ نے عوام کو ہند مخالف مسلح بخاوت کے لیے اکسایا ہے اور یہ پوسٹ ملک دشمن سرگرمیوں کو بڑھاوا دے سکتی ہے اور پیرزادہ عاشق کی کہانی ’عوام کے ذہنوں میں خوف یا گھبراہٹ پیدا کر سکتی ہے۔‘

اویناش کمار نے کہا کہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے تحت آزادی اظہار رائے کے حق پر کسی بھی قسم کی پابندیوں کا مظاہرہ ضروری اور متناسب ہونا چاہیے۔میڈیا انسانی حقوق کی پامالیوں کو رپورٹ کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے اور کووڈ 19 کے پیش نظر حکومت کے ذریعہ اٹھائے گئے اقدامات کو عوام سے روبرو کروانا ضروری ہے۔

ایک بار بھارت کے انسدادی دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے ذریعہ صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو حکومت کی پالیسیوں کی تنقید کرتے ہیں۔

انہوںنے مزید کہا کہ ہمیں اس وقت وبائی کیفیت کا سامنا ہے اس سے لڑنے کے لئے معلومات کی رسائی ضروری ہے۔ حکومت ہند کو چاہئے کہ وہ پریس کا مذاق نہ اڑائے۔ مسرت زہرہ، پیر زادہ عاشق اور دیگر افراد کے خلاف لگائے گئے الزام کو فوری طور پر خارج کردینا چاہیے جو آزادی اظہار رائے کے اپنے حق کے استعمال کی وجہ سے نظربند ہیں

واضح رہے کہ پیرزادہ عاشق روزنامہ دی ہندو میں بطور سنیئیر صحافی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 19 اپریل 2020 کو پولیس نے انہیں زبانی طور پر طلب کیا اور اسی دن شائع ہونے والی ایک کہانی میں مبینہ حقائق کی غلطیوں کی وضاحت کرنے کو کہا۔

پیر زادہ سری نگر میں رہائش پذیر ہیں ہے۔سرینگر سائبر پولیس نے ان سے پہلے پوچھ گچھ کی اور بعد میں شام کو تقربیا 40 کلومیٹر دور جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پولیس افسر کے سامنے پیش ہونے کو کہا اور بعد میں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔

مسرت زہرہ جو سری نگر سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ان پر 20 اپریل 2020 کو مجرمانہ ارداہ رکھنے اور نوجوانوں کو بہکانے کے لیے فیس بک پر ملک مخالف پوسٹیں اپ لوڈ کرنے کا الزام عائد کیا گیا اور انڈین پینل کورٹ اور یو اے ایک کے تحت ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ مسرت ایک آزادانہ فوٹو جرنلسٹ کی حیثیت سے کام کرتی ہیں، ان کا کام بین الاقوامی میڈیا جیسے واشنگٹن پوسٹ ، الجزیرہ اور بھارتی میڈیا جیسے کوئنٹ اور کاروان میں بھی شائع ہوا ہے۔

کشمیر پریس کلب (کے پی سی) اور کشمیر ورکنگ جرنلسٹ ایسوسی ایشن (کے ڈبلیو جے اے) نے اس کے بعد سے پولیس سے یہ الزامات واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب یو اے پی اے کے سخت قانون کے تحت صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ ایک مقامی صحافی آصف سلطان کو 27 اگست 2018 کو گرفتار کیا گیا تھا اور اسی قانون کے تحت جیل بھیج دیا گیا تھا اور اس کے بعد اسے رہا نہیں کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت بھارت کے دوسرے انسانی حقوق کے محافظوں اور صحافیوں پر الزام عائد کیا گیا ہے ان میں ارون فریریرا ، بینائک سین، ورنن گونسالیس ، سدھیر دھولے ، مہیش راوت ، شما سین ، سریندر گادلنگ ، رونا ولسن ، سدھا بھاردو ، ورورا راؤ ، گوتم نولاکھا ، اخیل گوگوئی سمیت دیگر لوگ شامل ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اویناش کمار نے جموں وکشمیر پولیس نے فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرہ کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں کے انسداد ایکٹ (یو اے پی اے) کا مقدمہ درج کرنے اور صحافی پیرزادہ عاشق کے خلاف بھی 'غلط اطلاع' پھیلانے کے الزام میں تحقیقات شروع کرنے والی خبر پر ردعمل ظاہر کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر کے صحافیوں کے خلاف پولیس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر اور ان کے خلاف تحقیقی کارروائی کرنا اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ حکم ان صحافیوں کی اظہار رائے کے حق کی آزادی پر قابو پانے کی کوشش کررہی ہے۔ یو اے پی اے جیسے قانون کے ذریعہ صحافیوں کو ہراساں اور دھمکانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔

کشمیر میں عام طور پر لاک ڈاؤن، انٹرنیٹ کی رفتار پر طویل پابندی کرنا، بغیر کسی دستاویزات کے صوابدیدی نظربند کرکے ہمیشہ دنیا سے کشمیر کا رابطہ ختم کیا جاتا رہا ہے،اس سے کشمیری عوام کی انسانی حقوق کی ضمانتوں کو سخت نقصان پہنچا ہے اور وہ بھارت اور دنیا بھر کے لوگوں کو جاننے کے حق سے محروم رہے ہیں۔

کشمیر میں صحافیوں کو پولیس اسٹیشن میں طلب کیا گیا ہے اور اپنی کہانیوں کو بیان کرنے کے لئے خود کو تھانے میں پیش کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ پیرزادہ عاشق کے معاملے میں ان سے کہا گیا کہ وہ خود کو متعلقہ پولیس افسر کے سامنے پیش کرنے کے لئے 40 کلو میٹر کا سفر طے کریں۔

پیرزادہ عاشق نے ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا "اگست 2019 کے بعد سے یہ دوسرا واقعہ ہے جب پولیس نے مجھے طلب کیا اور پوچھ گچھ کی ہے۔

اس بار انہوں نے میری دو کہانیوں کے بارے میں پوچھ گچھ کی ایک کشمیر اور جموں میں کووڈ 19 کے بارے اور دوسرا جنوبی کشمیر میں دو عسکریت پسندوں کے قتل پر ، جنھیں شمالی کشمیر کے بارہمولہ میں دفن کیا گیا تھا۔ مجھ سے اس رپورٹنگ کے بارے میں پوچھا گیا جس میں عسکریت پسندوں کے اہل خانہ نے دعوی کیا گیا تھا کہ ان کے لاشوں کو لانے کے لیے سفر کی اجازت دی گئی تھی لیکن بعد میں انہیں اجازت دینے سے انکار کردیا گیا تھا۔

سری نگر کے سائبر پولیس اسٹیشن کے کشمیر زون کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں دونوں صحافیوں کے خلاف کیے گئے مقدمات کو جواز پیش کیا۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ مسرت زہرہ کی اشتعال انگیز پوسٹ نے عوام کو ہند مخالف مسلح بخاوت کے لیے اکسایا ہے اور یہ پوسٹ ملک دشمن سرگرمیوں کو بڑھاوا دے سکتی ہے اور پیرزادہ عاشق کی کہانی ’عوام کے ذہنوں میں خوف یا گھبراہٹ پیدا کر سکتی ہے۔‘

اویناش کمار نے کہا کہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے تحت آزادی اظہار رائے کے حق پر کسی بھی قسم کی پابندیوں کا مظاہرہ ضروری اور متناسب ہونا چاہیے۔میڈیا انسانی حقوق کی پامالیوں کو رپورٹ کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے اور کووڈ 19 کے پیش نظر حکومت کے ذریعہ اٹھائے گئے اقدامات کو عوام سے روبرو کروانا ضروری ہے۔

ایک بار بھارت کے انسدادی دہشت گردی قانون یو اے پی اے کے ذریعہ صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو حکومت کی پالیسیوں کی تنقید کرتے ہیں۔

انہوںنے مزید کہا کہ ہمیں اس وقت وبائی کیفیت کا سامنا ہے اس سے لڑنے کے لئے معلومات کی رسائی ضروری ہے۔ حکومت ہند کو چاہئے کہ وہ پریس کا مذاق نہ اڑائے۔ مسرت زہرہ، پیر زادہ عاشق اور دیگر افراد کے خلاف لگائے گئے الزام کو فوری طور پر خارج کردینا چاہیے جو آزادی اظہار رائے کے اپنے حق کے استعمال کی وجہ سے نظربند ہیں

واضح رہے کہ پیرزادہ عاشق روزنامہ دی ہندو میں بطور سنیئیر صحافی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 19 اپریل 2020 کو پولیس نے انہیں زبانی طور پر طلب کیا اور اسی دن شائع ہونے والی ایک کہانی میں مبینہ حقائق کی غلطیوں کی وضاحت کرنے کو کہا۔

پیر زادہ سری نگر میں رہائش پذیر ہیں ہے۔سرینگر سائبر پولیس نے ان سے پہلے پوچھ گچھ کی اور بعد میں شام کو تقربیا 40 کلومیٹر دور جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پولیس افسر کے سامنے پیش ہونے کو کہا اور بعد میں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔

مسرت زہرہ جو سری نگر سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ ہیں۔ان پر 20 اپریل 2020 کو مجرمانہ ارداہ رکھنے اور نوجوانوں کو بہکانے کے لیے فیس بک پر ملک مخالف پوسٹیں اپ لوڈ کرنے کا الزام عائد کیا گیا اور انڈین پینل کورٹ اور یو اے ایک کے تحت ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ مسرت ایک آزادانہ فوٹو جرنلسٹ کی حیثیت سے کام کرتی ہیں، ان کا کام بین الاقوامی میڈیا جیسے واشنگٹن پوسٹ ، الجزیرہ اور بھارتی میڈیا جیسے کوئنٹ اور کاروان میں بھی شائع ہوا ہے۔

کشمیر پریس کلب (کے پی سی) اور کشمیر ورکنگ جرنلسٹ ایسوسی ایشن (کے ڈبلیو جے اے) نے اس کے بعد سے پولیس سے یہ الزامات واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب یو اے پی اے کے سخت قانون کے تحت صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔ ایک مقامی صحافی آصف سلطان کو 27 اگست 2018 کو گرفتار کیا گیا تھا اور اسی قانون کے تحت جیل بھیج دیا گیا تھا اور اس کے بعد اسے رہا نہیں کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت بھارت کے دوسرے انسانی حقوق کے محافظوں اور صحافیوں پر الزام عائد کیا گیا ہے ان میں ارون فریریرا ، بینائک سین، ورنن گونسالیس ، سدھیر دھولے ، مہیش راوت ، شما سین ، سریندر گادلنگ ، رونا ولسن ، سدھا بھاردو ، ورورا راؤ ، گوتم نولاکھا ، اخیل گوگوئی سمیت دیگر لوگ شامل ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.