مقامی لوگوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ہاری ترال لفٹ اریگیشن اسکیم متعلقہ حکام اور ٹھیکیداروں کے لیے سونے کے انڈے دینے والی مرغی ثابت ہو رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کے درجنوں دیہات جن میں ہاری، پنگلش، سیموہ، رٹھسونہ، بوچھو، بوچھو بالا، ہفو ،چھان کتار اور شالہ درمن دیہات کی ہزاروں نفوس پر مشتمل آبادی صداے احتجاج پر مجبور ہیں۔
پنگلش ترال کے رہنے والے غلام حسن ڈار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ نہ جانے کیوں یہ ہاری ترال لفٹ، اریگیشن اسکیم مکمل نہیں ہو رہی ہے، حالانکہ اس سال، تو مئی کے اواخر تک اسکیم کو مکمل کرنے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا ،لیکن جولائی تک یہ اسکیم مکمل نہیں کی جا رہی ہے۔
عوامی شکایات کے بعد ترال میں انتظامیہ بھی اس حوالے سے متحرک ہوتی نظر آ رہی ہے اور گزشتہ روز ایڈشنل ڈپٹی کمشنر ترال شبیر احمد رینہ نے متعلقہ حکام کے ہمراہ لفٹ اریگیشن اسکیم کا جائزہ لیا اور اس حوالے سے تفصیلات حاصل کئے۔
وہیں، ایڈشنل ڈپٹی کمشنر ترال نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے نے بتایا اس حوالے سے حکام نے مزید پمپ چالو کیے ہیں اور جلد ہی اس حوالے سے باغ مالکان کو خوش خبری ملے گی
انہوں نے اعتراف کیا کہ اس سکیم کے مکمل چالو ہونے سے آراضی کا ایک بڑا حصہ سیراب ہو سکتا ہے۔
بہرحال الزامات اور جوابی الزامات کے بیچ ترال کے لوگ اس دن کا انتظار کر رہے ہیں کہ کب سال 1981 میں شروع کی گئی یہ اسکیم مکمل ہو گئی
واضح رہے کہ اس اسکیم کا افتتاح اس وقت کے وزیر اعلیٰ شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ نے کیا تھا۔