پولیس کے ایک سینیئر افسر کے مطابق "بدھ کے روز صبح 6 بجے سے چھاپہ ماری کی کارروائی شروع کی گئی۔ پانچ جگہ چھاپے مار کارروائی کی گئی ہے جن میں چار صحافیوں (ہلال میر، شاہ عباس، شوکت موٹا اور اظہر قادری) کی رہائش گاہ شامل تھی۔ پانچویں جگہ شوکت موٹا کے سسرال پر بھی چھاپہ مار کارروائی کی گئی۔
پولیس کا مزید کہنا ہے کہ " گزشتہ برس سرینگر کے کوٹھی باغ میں 'کشمیر فائٹ بلاگ' کے حوالے سے ایک ایف آئی آر (82/2020)زیر سکشن 13 یو اے پی اے ایکٹ اور 506 آئی پی سی کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ درج ہے۔ اسی معاملے کی تحقیقات کے چلتے ان صحافیوں کے گھر چھاپہ ماری عمل میں لائی گئی ہے اور ان صحافیوں کو کوٹھی باغ پولیس اسٹیشن میں آج دوبارہ پوچھ کچھ کے لیے طلب کیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق صحافیوں کو گزشتہ روز پوچھ تاچھ کے بعد آٹھ بجے رہا کردیا گیا تھا۔
چھاپہ ماری کی مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے پولیس کا کہنا ہے کہ کہ "صبح 6 بجے راج باغ (عباس) سات بجے بمنہ (میر اور قادری) اور آخر پر موٹا کے سسرال (لال بازار) اور گھر (چھنہ پورہ) میں کی گئی تھی۔"
وہیں رہا کیے گئے صحافی کا کہنا تھا کہ "ہم تب سورہے تھے جب پولیس نے ان کے گھروں پر چھاپہ مارا۔ پولیس نے ہمارے گھر کی تلاشی لی اور فون، لیپ ٹاپ، کے علاوہ ہارڈ ڈسک بھی ضبط کئے ہیں۔ ہمارے پاسپورٹ بھی ضبط کیے گئے۔"
مزید پڑھیں:سرینگر میں چار صحافیوں کے گھروں پر پولیس کے چھاپے
ایک دوسرے صحافی کا کہنا ہے کہ "نہ صرف میرا بلکہ ہمارے اہل خانہ کے فون ضبط کئے گئے ہیں۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اب ہمارے کنبے کے افراد کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔"
صحافی کا کہنا ہے کہ "پولیس نے انہیں کام اور دیگر کاموں کے بارے میں پوچھ تاچھ کی تاہم کس معاملے میں پوچھ گچھ ہورہی ہے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔"
کشمیر فائٹ بلاگ پر اگرچہ بھارت میں پابندی لگائی گئی ہے لیکن بلاگ اب بھی فعال ہے اور حال ہی میں اس پر جموں و کشمیر سے شائع ہونے والے نامور اخبارات کے مدیروں کو دھمکی دی گئی تھی اور انہیں بھارت کا ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔
جموں و کشمیر پولیس نے جولائی میں دعویٰ کیا تھا کہ بلاگ چلانے والے پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔