سرینگر:شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگریکلچر سائنس اینڈ ٹیکنولوجی کے سائنسدانوں نے 2012 میں ایک نادر کارنامہ انجام دیا۔ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ملک میں دوسرا کلون شدہ پشمینہ بکری "نوری "کو پیدا کیا جو کہ آج کی تاریخ میں دس برس کی ہوچکی ہے۔Cloned Pashmina Goat Noori
ملک میں اس سے قبل سنہ 2009 میں کلون طریقہ کار سے "گریما" کے نام سے ایک بھینس کا بچھڑا ہریانہ میں پیدا کیا گیا۔
پشمینہ بکری "نوری" نامی پروجیکٹ کامیاب ہو جانے اور ان خاص بکریوں کے افزائش سے پشمینہ کی پیداواری صلاحیت میں کس طرح کا اضافہ ہوگا، مذکورہ بکریوں سے زیادہ پشمینہ حاصل ہوگا یا ان سے بھی عام مقدار میں ہی پشمینہ حاصل کیا جاسکتا اور اس سب پر بات کی ای ٹی وی بھارت کے نمائندے پرویز الدین نے سکاسٹ کے وائس چانسلر پروفیسر نظیر احمد سے خصوصی بات چیت کی۔
سکاسٹ کے وائس چانسلر پروفیسر نظیر احمد نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے انتھک کوششوں سے کامیاب رہا جو کہ خوش آئند بات ہے۔ جینیاتی عمل سے اس قسم کی بکری سے اون کی پیداواری صلاحیت بڑھانے پر کام کیا جارہا اور امید ہے کہ ان مذکورہ بکریوں سے زیادہ سے زیادہ اون حاصل ہو پائے گا۔
انہوں کہا کہ کلون ایک ایسا مصنوعی طریقہ کار ہے جس سے ان نایاب جانوروں کی تعداد فارم کی صورت میں بڑھائی جاسکتی ہے جو مستقبل میں فائدہ بخش ثابت ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
ایک سوال کے جواب میں سکاسے کے وی سی نے کہا کہ اس مصنوعی طریقے سے پشمینہ دینے والی بکریاں لداخ تک محدود نہیں رہی ہیں بلکہ اب یہ لداخ کے علاوہ کرگل میں بھی یہ پشمینہ بکریاں افزائش پارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سائنسی تجربات پر ایسا دیکھا گیا ہے سرد علاقوں میں ان سے بہتر اور اچھی مقدار میں پشمینہ حاصل کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کی افزائش میں ماحول اور موسم کا کافی عمل دخل ہے۔ ایسے میں سرد علاقوں کے ماحول میں رہ کر ہی ان میں اون دینے کی صلاحیت میں اضافہ دیکھا گیا۔
مزید پڑھیں:
پروفیسر نظیر احمد نے مزید کہا کہ زرعی سائنسدانوں اس پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں کہ اب کس طرح ان بکریوں سے زیادہ سے زیادہ پشمینہ حاصل کیا جاسکے۔
پروفیسر نظیر احمد کہتے ہیں کہ مشاہدے میں آیا ہے کہ اگر ان بکریوں کو موافق ماحول فراہم کیا جائے تو ان میں پشمینہ دینے کی صلاحیت میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے،جس سے یہاں کی اصل پشمینہ صنعت کو فروغ حاصل ہوگا۔