سرینگر:جموں و کشمیر میں اسمبلی نشستون کی از سر نو حد بندی کیلئے مرکزی حکومت کے قائم کردہ حد بندی کمیشن نے تمیم شدہ مسودے کی دوسری رپورٹ میں اسمبلی اور لوک سبھا نشستوں میں بھاری پیمانے پر تبدیلیوں کی تجویز رکھی ہے۔ کمیشن نے ان تجاویز کو یونین ٹیریٹری کے پانچ پارلیمنٹ ارکان کو پیش کیا ہے جو کمیشن کے ایسوسی ایٹ ممبران Associate Members of Delimitation Commission ہیں۔
ایک سینیئر آفیسر کے مطابق، رپورٹ میں کشمیر ڈویژن میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانے کے علاوہ راجوری اور پونچھ اضلاع کو اننت ناگ لوک سبھا نشست کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ مسودہ رپورٹ میں اننت ناگ پارلیمانی نشست کو از سر نو تشکیل دیا جائے گا اور اسکے کئی علاقوں کو کاٹ کر سرینگر کے ساتھ منسلک کیا جائیگا۔
حد بندی کمیشن کی تجویز کے مطابق، بارہمولہ کو دو نئے حلقے کنزر اور ٹنگمرگ ملے ہیں جبکہ موجودہ سنگرامہ حلقہ کو ٹنگمرگ کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔
کمیشن نے کپواڑہ ضلع میں ترہگام کا ایک نیا حلقہ تجویز کیا ہے اور تحصیل کرالپورہ کو کرناہ کے حلقے میں شامل کیا ہے۔
ضلع کولگام سے ہوم شالی باغ حلقہ بھی ختم کر دیا گیا ہے
جنوبی کشمیر کی بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ پلوامہ، ترال اور شوپیاں کے کچھ علاقے، جو اننت ناگ لوک سبھا سیٹ کا حصہ تھے، اب سرینگر پارلیمانی سیٹ کا حصہ ہوں گے۔
اسی طرح شانگس حلقہ کو جنوبی کشمیر میں اننت ناگ مشرقی اور لارنو حلقوں کے درمیان تقسیم کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں:Hasnain Masoodi On Delimitation Commission 2nd Report:حد بندی کمیشن اپنے من مطابق کام کر رہا ہے
سینیئر افسر کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ جمعہ کے روز پانچ ایسوسی ایٹ ممبران فاروق عبداللہ، حسنین مسعودی اور اکبر لون (نیشنل کانفرنس کے لوک سبھا ممبران پارلیمنٹ اور جتیندر سنگھ اور جگل کشور بی جے پی ممبران پارلیمنٹ کو بھیجی گئی۔
ان سے کہا گیا ہے کہ وہ 14 فروری تک اپنے خیالات و اعتراض پیش کریں جس کے بعد رپورٹ پبلک ڈومین میں ڈال دی جائے گی اور عام لوگوں سے اس کے بارے میں آراء چلب کی جائینگی۔
رپورٹ میں نیشنل کانفرنس کی طرف سے گزشتہ سال 31 دسمبر کو جموں خطہ میں اسمبلی کی چھ نشستوں میں اضافے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے دائر اعتراضات کو نظر انداز کیا گیا ہے جبکہ کشمیر ڈویژن میں صرف ایک نشست کے اضافی کے تجویز برقرار رکھی گئی ہے۔
یاد رہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مرکزی سرکار نے جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے تحت حدبندی کمیشن کا قیام عمل میں لایا ہے۔
حد بندی کمیشن برائے جموں وکشمیر کی سربراہی ریٹائرڈ جسٹس رنجنا پرکاش ڈیسائی کررہی ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر اور جموں وکشمیر کے ریاستی الیکشن کمشنر حد بندی کمیشن کے ممبران ہیں جبکہ جموں وکشمیر کے پانچ ممبران پارلیمنٹ کمیشن کے ایسوسی ایٹ ممبران ہیں، جن میں نیشنل کانفرس کے تین ارکان پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبدللہ ، جسٹس حسنین مسعودی ،محمد اکبر لون کے علاوہ بی جے پی کے دو ممبران پارلیمنٹ ڈاکٹر جیتندر سنگھ اور جگل کشور شرما شامل ہیں۔
رواں برس فروری میں ہونے والی حد بندی کمیشن کی میٹنگ سے نیشنل کانفرنس کے تین ممبران دور رہے تھے۔
پارٹی نے کمیشن کو اس وقت خط لکھا تھا جس میں یہ استدلال پیش کیا گیا کہ جے اینڈ کے ری آرگنائزیشن ایکٹ 2019 یعنی تشکیل نو مسودہ قانون چونکہ عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے ، اسلئے اس حد بندی کا قیام ہی غیر قانونی ہے۔
یاد رہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کا مرکزی سرکار کا فیصلہ اور تنظیم نو قانون 2019 کے خلاف کئی سیاسی و سماجی جماعتوں نے عدالت عظمیٰ میں چلینج کیا ہے، تاہم ابھی تک اس معاملے کی ایک بھی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔
جموں و کشمیر کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کئے جانے کے اگست 2019 کے متنازعہ عمل کے بعد وزیر اعظم نے گزشتہ برس محح ایک بار جموں و کشمیر کے ہند نواز لیڈروں کو مزاکرات کیلئے دلی مدعو کیا لیکن وہاں انہیں صرف یہ بات بتائی گئی کہ حد بندی کمیشن کے ساتھ تعاون کریں اور نئی حدبندی کے بعد ہی اسمبلی انتخابات منعقد ہوں گے جس کے بعد ریاستی درجے کی بحالی پر سوچا جاسکتا ہے۔ سیاسی قائدین حدبندی سے پہلے ریاستی درجے کی بحالی اور بعد میں اسمبلی انتخابات کی تجویز پیش کررہے تھے۔
واضح رہے کہ سنہ 2002 میں فاروق عبد اللہ کی حکومت نے حد بندی پر سنہ 2026 تک پابندی عائد کر دی تھی۔ تاہم تنظیم نو قانون کے اطلاق کے بعد مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر میں نئے اسمبلی حلقوں کے قیام کے لیے حد بندی کمیشن تشکیل دے کر یونین ٹریٹری میں مزید سات سیٹوں کا اضافہ کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
جموں و کشمیر کے ہند نواز سیاسی حلقے، اس عمل کو کشمیر وادی کو سیایسی طور کمزور بنانے کی ایک کڑی سمجھتے ہیں۔ انکے مطابق حکومت نے دیگر ریاستوں میں حدبندی نہیں کی لیکن جموں و کشمیر میں اسے عملانے میں عجلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ کشمیر کے سیاسی قائدین کہتے ہیں کہ مرکزی حکومت کا اصل ہدف یہ ہے کہ مسلم اکثریتی علاقے میں ہندو وزیر اعلیٰ تعینات کرنے کی راہ ہموار کی جائے۔
سابق ریاست جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی تعداد 111 تھی جن میں 87 پر ہی انتخابات منعقد ہوتے تھے باقی 24 سیٹوں کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لیے مخصوص رکھا گیا ہے۔