رواں ماہ کی 18 تاریخ کو پولیس کو حکم دیتے ہوئے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ سرینگر کا کہا ہے کہ "درخواست گزار کی جانب سے خاتون کی موت کے حوالے سے اٹھائے گئے خدشات کو دور کرنا ضروری ہے اور اس لیے تحقیقات ضروری ہے۔ معاملے کے تمام پہلوؤں کی جانچ ضروری ہے۔"
اس کے مزید کہا گیا ہے کہ "سکیورٹی ایجنسیوں نے اس معاملے پر لاپروائی دکھائی ہے اور ایف ائی آر بھی درج نہیں کیا۔ اس معاملے میں ایف آئی آر درج کر کے خاتون کی ہلاکت کی وجہ کی تحقیقات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔"
درخواست گزار محمد رفیق شاگو نے اپنی عرضِ میں عدالت سے پولیس کو معاملہ میں ایف آئی آر درج کر تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔شاگو فوت ہوئی خاتون فہمیدہ کے خاوند ہیں۔
درخواست کے مطابق فہمیدہ موت سنہ 2019 کے اگست ماہ کی 9 تاریخ کو احتجاج کے دوران پولیس اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے اُن کے گھر پر فائر کیے گئے آنسو گیس کے گولوں کی زہریلی گیسوں کے سانس کی وجہ سے ہوئی ہے۔
اس کے مزید کہا گیا ہے کہ احتجاج سرینگر کے بیمنہ علاقے میں دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے خلاف احتجاج ہوا تھا۔جس دوران پولیس نے درخوست گزار کے گھر پر آنسو گیس کے گولے بین کسی وجہ چلائے۔جس کے نتیجے میں اُن کے گھر کے شیشے ٹوٹ گئے اور دو بچوں کی ماں فہمیدہ زہریلے گیسوں کی وجہ سے بیہوش ہو گئی۔ جب اُن کو ہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا تو فہمیدہ راستے میں خون کی الٹی کرتی رہی اور ہسپتال میں ڈاکٹروں کے سامنے اُن کی موت واقع ہوئی۔
مزید پڑھیں:
شاگو نے درخواست میں دعوی کیا ہے کہ اُنہیں اس کے بعد کئی بار پولیس اسٹیشن کے چکر کاٹے تاکہ معاملہ درج کر تحقیقات پولیس کی جانب سے کے جائے تاہم شکایت درج نہیں کی گئے اور اُن کو عدالت کا رخ کرنا پڑا۔
وہیں پولیس نے عدالت میں قبول کیا کہ آنسو گیس کے گولے احتجاجییوں کے خلاف استعمال کیے گئے تھا۔ اور اس معاملے کی تحقیقات بھی اس روز رونما ہوۓ پتھر بازی کے معاملات کی روشنی میں ہوگی۔