جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ سے تقریباً سات کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پائر نامی ایک گاؤں آباد ہے، مذہبی اعتبار سے یہ گاؤں کافی اہمیت کا حامل ہے، اس گاؤں میں صدیوں پرانا ایک مندر ہے جو آج بھی اپنی اصل صورت میں موجود ہے، جبکہ اس علاقہ میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے کوئی فرد تک نہیں ہے۔ A centuries-old temple in a village in Pulwama under the supervision of local Muslims
اس مندر کا ذکر Sir Walter Roper Lawrence نے اپنی کتاب The valley of Kashmir میں کیا ہے،انہوں نے اس مندر کے گردونواح کے چیزوں سے متعلق لکھا ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ مندر 8 فٹ مربع ہے اور چاروں جانب اس کے کھلا دروازے ہیں۔ چاروں دروازوں پر مجسمہ سازی کی گئی ہے، اس مندر کی تعمیر نریندرادتیہ کے دور حکمت میں کی گئی ہے، جنہوں نے 483 عیسوی سے 490 تک یہاں حکومت کی۔ یہ مندر برہما، وشنو، شیوا اور دیوی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس مندر کے اندر ایک بڑا پتھر آج بھی موجود ہے، جس کو لنگم کہا جاتا ہے، ایک اور مصنف Baron Hugel کا کہنا ہے کہ کشمیر کے تمام مندروں میں سے یہ قدیم ترین مندر ہے۔
ضلع پلوامہ کے سب سے مشہور مذہبی پرکشش مقامات میں سے ایک اس مندر کو مسافروں کے ذریعہ پائیچ مندر( Payech Temple ) بھی کہا جاتا ہے۔ وادی کشمیر میں مسجد، مندر اور گردوارہ ہونے کی وجہ سے وادی کشمیر کو (پیروار) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کشمیر میں تمام مذاہب کے ماننے والے افراد رہتے ہیں، لوگ ایک دوسرے کے مذاہب کی قدر کرتے ہیں، وہی ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کی تحفظ کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک زندہ مثال ہمیں ضلع پلوامہ کے پایئر (Payer) علاقے میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔یہ گاؤں اگرچہ 400 چھولوں (گھروں )پر مشتمل ہے اور اس علاقے میں ایک بھی ہندو آباد نہیں ہیں، مگر پھر بھی اس علاقے میں صدیوں پرانا مندر ابھی بھی موجود ہے جس کی دیکھ بھال علاقے کے مسلمان کر رہے ہیں، اور یہ ضلع پلوامہ کا پایئر گاؤں بھائی چارہ اور مذہبی ہم آہنگی کی ایک مثال پیش کرتا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کشمیر میں گذشتہ دو دہائیوں کی شورش کے دوران 208 مندروں کو نقصان پہنچایا گیا ہیں۔ تاہم اس مندر کو آج تک مقامی مسلمان نے حفاظت کرکے اس کو اصل صورت میں موجود رکھا ہے۔ اس حوالے سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس گاؤں میں کوئی پنڈت خاندان نہیں رہتا ہے، تاہم ضلع کے دوسرے گاؤں کے پنڈت یہاں آ کر پوجا پاٹ کرتے تھے، وہیں آج بھی جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے اقلیتی برادری کے ارکان یہاں کبھی کبھار آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی اور غیر ملکی سیاح بھی اکثر یہاں آتے ہے کیونکہ یہ مندر اپنے خوبصورت فن تعمیر اور شیو کی نقش کندہ مجسموں کے لئے مشہور ہے۔ وہ یہاں آکر اس کی تاریخ کے بارے میں جاننے میں بہت دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔
دو ہزار بیس میں میں ایک آثار قدیمہ کے سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے اس کی دیکھ بھال اور حفاظت کا کام شروع کیا تاہم اس سے پہلے مقامی لوگ ہی اس کی دیکھ بھال کرتے تھی۔اس سے پہلے آوارہ کتوں اور مویشیوں کو احاطے میں داخل ہونے سے روکنا زیادہ مشکل تھا۔ اب اس کا مرکزی دروازہ بند ہے اور کسی کو بھی بغیر اجازت اندر جانے کی اجازت نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں:خوش آئند: بارہمولہ میں مسلمان مندروں کی دیکھ ریکھ کر رہے ہیں
1990 کی دہائی میں ایک دور آیا تھا جب مندروں کو شرپسندوں عناصر نے تیزی سے نشانہ بنایا اس وقت مقامی لوگوں کے اس کی حفاظت کی۔ انہوں نے کہا جس طرح ہم اپنی عبادت گاہ کا تحفظ کرتے ہیں ویسے ہی ہم نے اس مندر کا تحفظ کیا اور کرتے رہیں گے۔