پورے ملک کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں بھی بےروزگاری نے نوجوانوں میں ناامیدی طاری کر دیا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں نوجوانوں میں ایسی مایوسی چھائی ہے کہ انہیں اپنا مستقبل تاریک ہوتا نظر آ رہا ہے لیکن ہر مایوسی میں امید کی ایک کرن بھی ہوتی ہے اور وہ کرن بینائی سے محروم بھائیوں نے پھیلانے کی قابل قدر کوشش کی ہے۔
سرینگر سے تعلق رکھنے والے دو نابینا بھائیوں نے اپنا روزگار کچھ ایسے طریقے سے چلارہے ہیں جس پر ہر کس و ناکس رشک کر رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق
غلام نبی تیلی اور محمد حسین تیلی نیگین حضرت بل سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں بھائی شادی شدہ ہیں اور محنت و مشقت کرکے اپنے اہل خانہ کی کفالت احسن طریقے سے کر رہے ہیں۔
بستر اور بیڈ بنانے کا کام کررہے دونوں بھائیوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی عدم توجہی کے باوجود بھی ہم اپنا روزگار چلارہے ہیں۔ ہم نے یہ فن اپنے والد غلام محمد تیلی سے سیکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نابینا ہونے کے باوجود بھی ہم یہ کام اچھے طریقے سے کررہے ہیں۔ ابتداء میں دہرا دھون میں تعلیم حاصل کرنے بعد غلام نبی نے کشمیر واپس آکر اپنے والد سے بستر بنانے کا کام سیکھ کر اپنا روزگار شروع کیا پھر بعد میں اپنے چھوٹے بھائی محمد حسین کو بھی اس فن میں طاق کیا۔
غلام نبی اور محمد حسین دونوں بھائی ان نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں جو قدرت کی دی ہوئی تمام نعمتوں سے مالامال ہوکر بھی بے روزگاری کی دُہائی دے رہے ہیں۔ اور روزگار کے لیے اِدھر اُدھر دھکے کھا رہے ہیں اور اپنا چھوٹا سا ہی صحیح کاروبار کرنے کی ہمت نہیں جُٹا پار ہے ہیں۔
بینائی سے محروم دونوں بھائیوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے یہ کام اپنے والد سے نہیں سیکھا ہوتا تو ہم بھی ان لوگوں کی طرح ہوتے جو بینائی رہنے کے باوجود دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا رہے ہوتے۔
اپنے والد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دونوں بھائیوں کا کہنا ہے کہ بیڈ اور بستر بنانے کا کام سیکھ کر ہمارے والد نے ہمیں نابینا ہوکر بھی زندگی میں آگے بڑھنے کی راہ دِکھائی۔