سی پی آئی (ایم) کے رہنما محمد یوسف تاریگامی نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر انتظامیہ کے تازہ ترین احکامات کہ ملازم کی مبینہ طور پر دہشت گردی، تخریب کاری میں ملوث ہونے کی وجہ سے برطرفی اور ملازمین کو پاسپورٹ نہ دینا جب تک کہ وہ ویجیلنس کلیئرنس حاصل کریں آمرانہ اور ملازم کش ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 'ایک سرکاری ملازم حکومت کی پالیسیوں کو نافذ کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر اسی ملازم کو مشتبہ بنا کر اس پر بار بار شک کیا جائے تو اس سے اس کے کام پر منفی اثر پڑے گا اور اس کے نتیجے میں حکومت کا مجموعی کام متاثر ہوگا'۔
انہوں نے کہا کہ 'ایسا لگتا ہے کہ کچھ غلط مشوروں کی وجہ سے جموں و کشمیر انتظامیہ اس طرح کے بلاجواز عمل کا سہارا لے رہی ہے اور اپنے ملازمین کو نشانہ بنا رہی ہے اور اس طرح انہیں مسلسل خوف میں ڈال رہی ہے'۔
تاریگامی نے کہا کہ اگر کوئی ملازم قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے تو اس کے ساتھ پہلے سے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق نمٹا جانا چاہیے، لیکن جمہوریت میں اس قسم کا صوابدیدی طریقہ اچھا نہیں ہے۔ اسی طرح، کسی بھی ملازم کو مقدمے کی بنیاد پر پاسپورٹ سے انکار کرنا قانون کی عدالت میں مجرم قرار پانے کا متبادل نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ 'نظام عدل کے سب سے مقدس اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ ایک شخص اس وقت تک بے قصور ہے جب تک اس کے خلاف جرم ثابت نہ ہو جائے۔ حکومت محض کیس کی رجسٹریشن پر ملازم کو پاسپورٹ دینے سے کیسے انکار کر سکتی ہے؟
مزید پڑھیں:سرکاری ملازمین کو پاسپورٹ کے حصول کے لیے اے سی بی کا کلیئرنس لازمی
انتظامیہ کی طرف سے جاری آمرانہ احکامات تمام خطوں اور برادریوں کے لوگوں کے مفادات کے خلاف ہے۔ اس طرح کے احکامات جاری کرنے کے بجائے حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ لوگوں کے حقوق اور ان کے معاش کا تحفظ کیا جائے'۔
(یو این آئی)