وادی کشمیر میں مسلسل لاک ڈاؤن کا ناجائز فائدہ اٹھا کر دکانداروں نے اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں از خود اضافہ کر کے عام لوگوں کو دو دو ہاتھوں لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
سبزی، پھل اور پولٹری کی اشیاء کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ کیا گیا ہے کہ لوگوں، بلخصوص غریب عوام کے لیے یہ سب چیزے خریدنا مشکل ہوتی جارہی ہے۔
سبزی فروشوں نے اپنی من مانی قیمتوں سے عوام کو لوٹنے کا اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے۔ بغیر کسی ریٹ لسٹ کے گاہکوں سے منہ مانگی قیمتیں وصولی جاتی ہیں۔آج کل شہر سرینگر میں ساگ 60 سے 70 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کیا جارہا ہے۔ جبکہ ٹماٹر، آلو،پیاز، گوبھی، پالک، گاجر اور مولی وغیرہ 40 سے 50 روپے فی کلو دستیاب ہیں۔ وہیں مٹر بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ اس کی قیمت تو دیگر سبزیوں کے مقابلے میں دوگنی ہے۔ جی ہاں! مٹر 90 سے 100 روپے فی کلو فروخت کیا جا رہ ہے۔ اسی طرح مرغ 140 سے 150 روپے فی کلو ،گوشت 550 روپے جبکہ انڈے فی درجن 75 روپے کے حساب سے دستیاب ہیں۔
ادھر سبزی اور پولٹری کے ساتھ ساتھ پھل کی قیمتیں بھی ان سے کچھ مخلتف نہیں ہیں کیلہ اور سنترے 100 سے 150 روپے فی درجن جبکہ سیب 100 سے 150 فی کلو دستیاب ہے۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ مہلک کوروناوائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر ملکی سطح پر لاک ڈاون کی وجہ سے کشمیر میں سبزی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ سے لوگوں کا جینا محال ہوگیا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سبزی فروشوں کا پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ منہ مانگی قیمتوں پر گاہکوں سے سبزی کے دام وصولتے ہیں۔
وہیں دوسری جانب سبزی فروشوں کا ماننا ہے کہ گزشتہ دنوں کے لاک ڈاون اور قومی شاہراہ بند ہونے کی وجہ سے منڈی میں ہی سبزی بیوپاری مہنگے داموں انہیں سبزی فروخت کرتے ہیں جس کا براہ راست اثر عام گاہک پرپڑنا لازمی ہے۔
ادھر سبزی منڈی میں بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ جہاں اس لاک ڈاؤن سے تمام شعبہ ہائے زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں وہیں اس کاروبار پر بھی برا اثرا پڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے باہر کی ریاستوں سے سبزی وادی کشمیر میں ضرورت کے حساب سے کافی کم درآمد ہوتی ہے وہیں کئی کئی دنوں تک سبزی سے لدی گاڑیاں شاہراہ پر درماندہ ہوکر رہ جاتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں بھی کافی نقصان سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔
بہرحال ایک جانب جہاں کووڈ 19 کے خطرات سے لوگ اپنے آپ کو بچانے کی فکر و تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہیں دوسری جانب وادی کشمیر میں قیمتیوں میں اعتدال نہ ہونے کی وجہ سے عوام کو مزید پریشانیوں کا سامنا کرنا ٘پڑرہا ہے۔