ETV Bharat / city

محمد زماں آزردہ سے ایک خاص ملاقات

محمد زماں آزردہ نے اپنی ابتدائی تعلیم سرینگر کے ایک مقامی اسکول سے حاصل کی ہے جبکہ ہری سنگھ ہائی اسکول سے انہوں نے میڑک کیا ہے۔ گھریلوں حالات کے سبب اگرچہ میٹرک مکمل کرنے کے بعد ہی انہیں مختلف ملازمتیں اختیار کرنی پڑیں۔ لیکن مزید پڑھائی کو جاری رکھتے ہوئے کشمیر یونیورسٹی میں معلم مقرر ہوئے۔ بعد میں یونیورسٹی کے شعبہ اردو کشمیری اور دیگر شعبہ جات کے سربراہ بھی رہیں۔

محمد زماں آزردہ سے ایک خاص ملاقات
محمد زماں آزردہ سے ایک خاص ملاقات
author img

By

Published : Oct 5, 2021, 6:15 PM IST

ادب کے میدان میں پروفیسر محمد زماں آزردہ ایک بڑا نام ہے۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک محمد زماں آزردہ بیک وقت شاعر، ادیب، تنقید نگار اور ترجمہ نگار بھی ہیں۔ بلکہ انہوں نے کشمیر یونیورسٹی کے اعلی عہدوں اور ساہتیہ اکیڈمی کے کنوینر کے طور پر بھی اپنی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔

محمد زماں آزردہ سے ایک خاص ملاقات
ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ پرویز الدین نے پروفیسر محمد زماں آزدرہ کے ادبی سفر کے حوالے سے ان سے ایک خاص گفتگو کی۔ پیدائش اور ابتدائی تعلیم و تربیت سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں محمد زماں آزدرہ نے کہا کہ ان کی پیدائش 17مارچ 1945 میں پنجاب کے شہر امرتسر میں ہوئی۔ اس وقت والدین تجارت کے سلسلے میں امرتسر میں قیام پذیر تھے۔ پھر تقسیم ملک کے بعد والدین کو اپنے آبائی وطن کشمیر واپس لوٹنا پڑا۔محمد زماں آزردہ نے اپنی ابتدائی تعلیم سرینگر کے ایک مقامی اسکول سے حاصل کی ہے جبکہ ہری سنگھ ہائی اسکول سے انہوں نے میڑک کیا ہے۔ گھریلوں حالات کے سبب اگرچہ میٹرک مکمل کرنے کے بعد ہی انہیں مختلف ملازمتیں اختیار کرنی پڑیں۔ لیکن آگے کی پڑھائی جاری رکھتے ہوئے کشمیر یونیورسٹی میں معلم مقرر ہوئے۔ بعد میں یونیورسٹی کے شعبہ اردو کشمیری و دیگر شعبہ جات کے سربراہ بھی رہیں۔پروفیسر محمد زماں آزردہ نے ادب کی الگ الگ صنفوں میں اپنا قلم آزمایا ہے اور نہ صرف کامیاب رہے بلکہ ان کی تحریروں نے ادب کے میدان میں کئی نقوش بھی چھوڑے۔ اگرچہ انہوں نے اپنی شاعری کا آغاز انگزیزی زبان سے کیا۔ لیکن یہ اپنی تصنیفات سے اردو کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان کشمیری کی بھی بھر پور آبیاری کرتے رہے اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ زبان وہی زیادہ دل کے قریب ہوتی ہے جس زبان میں شعر نازل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تخلیقی ذہانت کو کسی خاص زبان سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔ البتہ کچھ ایسے خیالات یا باتیں ہیں جو کہ قلمکار خالص مادری زبان میں ہی بہتر طور پر ظاہر کرسکتا ہے۔اسکولوں کے تدریسی کتابوں میں جموں وکشمیر کے ادباء، شعراء حضرات اور یہاں کے اہم مقامات کو شامل کرنے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچوں کے تدریسی نصاب میں وادی کشمیر کے ادباء، شعراء حضرات یا دیگر اہم مقامات کا ذکر اس وقت بہت کم ملتا تھا جس پر کام کرنے کی بے حد ضرورت تھی۔ تاکہ دیگر شاعروں، ادیبوں اور ملک کی دیگر اہم تاریخی مقامات کے ساتھ ساتھ بچے یہاں کے اثاثوں سے بھی واقفیت حاصل کرسکے۔

مزید پڑھیں: اننت ناگ: خشک سالی کے سبب دھان کی پیداوار میں کمی سے کسان مایوس

گفتگو کے دوران پروفیسر محمد زماں آزردہ نے کہا کہ جموں وکشمیر میں نوجوان شعراء اور قلمکار سامنے آرہے ہیں جن کے کام کو سراہانا ازحد ضروری ہے تاکہ وہ ادب کے میدان میں مزید آگے بڑھ سکے۔ انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر میں ادب کے لحاظ سے کافی ذرخیز ہے اور اس کا مستقبل بھی کافی روشن ہے۔

ادب کے میدان میں پروفیسر محمد زماں آزردہ ایک بڑا نام ہے۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک محمد زماں آزردہ بیک وقت شاعر، ادیب، تنقید نگار اور ترجمہ نگار بھی ہیں۔ بلکہ انہوں نے کشمیر یونیورسٹی کے اعلی عہدوں اور ساہتیہ اکیڈمی کے کنوینر کے طور پر بھی اپنی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔

محمد زماں آزردہ سے ایک خاص ملاقات
ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ پرویز الدین نے پروفیسر محمد زماں آزدرہ کے ادبی سفر کے حوالے سے ان سے ایک خاص گفتگو کی۔ پیدائش اور ابتدائی تعلیم و تربیت سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں محمد زماں آزدرہ نے کہا کہ ان کی پیدائش 17مارچ 1945 میں پنجاب کے شہر امرتسر میں ہوئی۔ اس وقت والدین تجارت کے سلسلے میں امرتسر میں قیام پذیر تھے۔ پھر تقسیم ملک کے بعد والدین کو اپنے آبائی وطن کشمیر واپس لوٹنا پڑا۔محمد زماں آزردہ نے اپنی ابتدائی تعلیم سرینگر کے ایک مقامی اسکول سے حاصل کی ہے جبکہ ہری سنگھ ہائی اسکول سے انہوں نے میڑک کیا ہے۔ گھریلوں حالات کے سبب اگرچہ میٹرک مکمل کرنے کے بعد ہی انہیں مختلف ملازمتیں اختیار کرنی پڑیں۔ لیکن آگے کی پڑھائی جاری رکھتے ہوئے کشمیر یونیورسٹی میں معلم مقرر ہوئے۔ بعد میں یونیورسٹی کے شعبہ اردو کشمیری و دیگر شعبہ جات کے سربراہ بھی رہیں۔پروفیسر محمد زماں آزردہ نے ادب کی الگ الگ صنفوں میں اپنا قلم آزمایا ہے اور نہ صرف کامیاب رہے بلکہ ان کی تحریروں نے ادب کے میدان میں کئی نقوش بھی چھوڑے۔ اگرچہ انہوں نے اپنی شاعری کا آغاز انگزیزی زبان سے کیا۔ لیکن یہ اپنی تصنیفات سے اردو کے ساتھ ساتھ اپنی مادری زبان کشمیری کی بھی بھر پور آبیاری کرتے رہے اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ زبان وہی زیادہ دل کے قریب ہوتی ہے جس زبان میں شعر نازل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تخلیقی ذہانت کو کسی خاص زبان سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔ البتہ کچھ ایسے خیالات یا باتیں ہیں جو کہ قلمکار خالص مادری زبان میں ہی بہتر طور پر ظاہر کرسکتا ہے۔اسکولوں کے تدریسی کتابوں میں جموں وکشمیر کے ادباء، شعراء حضرات اور یہاں کے اہم مقامات کو شامل کرنے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچوں کے تدریسی نصاب میں وادی کشمیر کے ادباء، شعراء حضرات یا دیگر اہم مقامات کا ذکر اس وقت بہت کم ملتا تھا جس پر کام کرنے کی بے حد ضرورت تھی۔ تاکہ دیگر شاعروں، ادیبوں اور ملک کی دیگر اہم تاریخی مقامات کے ساتھ ساتھ بچے یہاں کے اثاثوں سے بھی واقفیت حاصل کرسکے۔

مزید پڑھیں: اننت ناگ: خشک سالی کے سبب دھان کی پیداوار میں کمی سے کسان مایوس

گفتگو کے دوران پروفیسر محمد زماں آزردہ نے کہا کہ جموں وکشمیر میں نوجوان شعراء اور قلمکار سامنے آرہے ہیں جن کے کام کو سراہانا ازحد ضروری ہے تاکہ وہ ادب کے میدان میں مزید آگے بڑھ سکے۔ انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر میں ادب کے لحاظ سے کافی ذرخیز ہے اور اس کا مستقبل بھی کافی روشن ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.