اس احتجاج کو متعدد سماجی و سیاسی تنظیموں اور طلبہ یونین کی حمایت مل رہی ہے۔ حالانکہ انتظامیہ اس احتجاج کو لیکر نہایت سختی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ وہ کی بھی قیمت پر دیوبند کے عیدگاہ میدان میں جاری اس احتجاج کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، مگر اس کے باوجود خواتین اس تحریک کے تئیں پر عزم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت سی اے اے کو واپس نہیں لے گی۔
متحدہ خواتین کمیٹی کے زیراہتمام دیوبند کے عیدگاہ میدان میں جاری خواتین کا 'ستیہ گرہ' چودویں دن بھی بدستوری جاری رہا۔ سنیچر کی رات اور اتوارکے روز یہاں بڑی تعداد میں خواتین نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایک بزرگ خاتون نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوگا تب تک ہم یہاں رہیں گے۔ ا
نہوں نے کہا کہ مسلم بہنوں سے محبت کا دعویٰ کرنے والے آج ہمارے درمیان کیوں نہیں آتے ہیں۔ رابعہ نے کہا کہ آج ہمیں اپنے بھائی مودی کی یاد آ رہی ہے آخر وہ کیوں ہمارے سوالات کا جواب نہیں دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب تک یہ قانون واپس نہیں ہوگا ہمارا مظاہرہ ختم نہیں ہوگا۔
پروفیسر صبیحہ شاہین نے کہا کہ ہمارے کالج میں ہمارے علاوہ کوئی مسلم نہیں ہے لیکن وہاں کا بھائی چارہ اور ہندو مسلم ایکتا لوگوں کے لیے مثالی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مگر اس وقت اس طرح کے قانون لائے جا رہے ہیں جس سے ملک میں مذہب کے نام پر دوریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو یہ قانون واپس لینا چاہئے۔ صالحہ نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ ہم گاندھی، امبیڈکر اور آئین کو ماننے والے لوگ ہیں لیکن آج حکومت آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا احتجاج سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کے خلاف ہے۔ احتجاج چل رہا ہے، یہ احتجاج اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک ہم اپنی اس تحریک کو جاری رکھے گیں۔