ETV Bharat / city

سہارنپور کا سکندر کون؟ - سہارنپور کا سکندر کون؟

ریاست اترپردیش کے سہارنپور پارلیمانی نشست سے 11 امیدواروں نے پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے، جہاں 11 اپریل کو انتخابات ہونے ہیں۔

متعلقہ تصویر
author img

By

Published : Apr 3, 2019, 9:29 PM IST

ملک کے نمبر ایک پارلیمانی سیٹ سہارنپور سے عام انتخابات کے لیے 11 امیدواروں نے پرچہ نامزدگی داخل کیے ہیں، بی جے پی سے راگھولکھن پال شرما، کانگریس سے عمران مسعود، بی ایس پی۔ ایس پی اتحاد سے حاجی فضل الرحمن، عام آدمی پارٹی سے یوگیش دحیہ، شیوپال یادو کی پارٹی' پرگتی شیل پارٹی سے اویس ملک سمیت کل 11 امیدوار اپنی قسمت آزمارہے ہیں۔

متعلقہ ویڈیو

پانچ اسمبلی سیٹ پر مشتمل سہارنپور پارلیمانی سیٹ کے لیے کل 17 لاکھ ووٹرز اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ جبکہ 2 اسبملی حلقہ کیرانا پارلیمانی سیٹ میں شامل ہے۔

عام انتخابات کے تعلق سے سہارنپور کے عوام کا کہنا ہے کہ وہ اس مرتبہ ایسی حکومت چاہتے ہیں جو انتخابات کے دوران کیے گئے تمام وعدے کو پورا کرے اور ان پر ثابت قدمی ہوکر چلے۔

ویسے تو سہارنپور ہندو مسلم اتحاد کے لیے مشہور ہے، لیکن سیاسی جماعتیں انتخابات کے لیے امیدوار کا انتخاب ذات برادری پر کرتی ہے۔

سہارنپور پارلیمانی سیٹ کے لیے پانچ اسمبلی سیٹیں ہیں، ان میں سے کسی سیٹ پر گجروں کی تعداد زیادہ ہے تو کسی پر ٹھاکروں کی اکثریت ہے، جبکہ دیہات کے سیٹوں پر دلتوں کی اکثریت ہے۔ پورے پارلیمانی سیٹ کے لیے ٹھاکر سمیت سینی معاشرے کے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ جبکہ اعداد و شمار کے مطابق سہارنپور پارلیمانی سیٹ میں مسلم ووٹرز کی حصہ داری 41 فیصد ہے۔

ملک کے نمبر ایک پارلیمانی سیٹ سہارنپور سے عام انتخابات کے لیے 11 امیدواروں نے پرچہ نامزدگی داخل کیے ہیں، بی جے پی سے راگھولکھن پال شرما، کانگریس سے عمران مسعود، بی ایس پی۔ ایس پی اتحاد سے حاجی فضل الرحمن، عام آدمی پارٹی سے یوگیش دحیہ، شیوپال یادو کی پارٹی' پرگتی شیل پارٹی سے اویس ملک سمیت کل 11 امیدوار اپنی قسمت آزمارہے ہیں۔

متعلقہ ویڈیو

پانچ اسمبلی سیٹ پر مشتمل سہارنپور پارلیمانی سیٹ کے لیے کل 17 لاکھ ووٹرز اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ جبکہ 2 اسبملی حلقہ کیرانا پارلیمانی سیٹ میں شامل ہے۔

عام انتخابات کے تعلق سے سہارنپور کے عوام کا کہنا ہے کہ وہ اس مرتبہ ایسی حکومت چاہتے ہیں جو انتخابات کے دوران کیے گئے تمام وعدے کو پورا کرے اور ان پر ثابت قدمی ہوکر چلے۔

ویسے تو سہارنپور ہندو مسلم اتحاد کے لیے مشہور ہے، لیکن سیاسی جماعتیں انتخابات کے لیے امیدوار کا انتخاب ذات برادری پر کرتی ہے۔

سہارنپور پارلیمانی سیٹ کے لیے پانچ اسمبلی سیٹیں ہیں، ان میں سے کسی سیٹ پر گجروں کی تعداد زیادہ ہے تو کسی پر ٹھاکروں کی اکثریت ہے، جبکہ دیہات کے سیٹوں پر دلتوں کی اکثریت ہے۔ پورے پارلیمانی سیٹ کے لیے ٹھاکر سمیت سینی معاشرے کے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ جبکہ اعداد و شمار کے مطابق سہارنپور پارلیمانی سیٹ میں مسلم ووٹرز کی حصہ داری 41 فیصد ہے۔

Intro:اینکر   

سہارنپور۔ پارلیمنٹری انتخابات 2019 کے لئے ووٹ دینے کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ ملک کی نمبر ایک سیٹ سہارنپور سے بھاجپا نے ایم پی راگھو لکھن پال شرما پر ایک بار پھر سے بھروسہ ظاہر کیا ہے۔ وہی کانگریس نے پچھلے انتخابات میں ہار کر دوسرے نمبر پر رہے صوبے کے عمران مسعود پر اپنا داؤں کھیلا ہے۔ جبکہ سماج وادی اور بہوجن سماج پارٹی اور رعلود کے اتحاد سے بہوجن سماج پارٹی امیدوار حاجی فضل الرحمن کو ٹکٹ دے کر انتخاب کے میدان میں اتارا ہے۔ اگر ہم عام آدمی پارٹی کی بات کریں تو یوگیش دحیہ کو ایک بار پھر سے امیدوار بنا کر اپنی حاضری درج کرائی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ سماجوادی سے نکل کر نئی پارٹی بنا کر شیوپال یادو نے پرگتی شیل سماجوادی پارٹی سے اویش ملک کو امیدوار بنایا ہے۔ سہارنپور پارلیمنٹری سیٹ پر ٹوٹل 11امیدوار اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ جہاں 5 اسمبلی علاقوں کے قریب 17 لاکھ لوگ اپنے ایم پی کے انتخاب کے لئے پہلے حصے میں یعنی 11 اپریل کو ووٹ ڈالیں گے۔ وہی 2 اسمبلی علاقہ کیرانا پارلیمنٹری سیٹ میں شامل ہے۔ سہارنپور کے ووٹروں نے ای ٹی وی سے بات چیت میں شہری مدے گنواتے ہوئے بتایا کہ انہیں ایسی حکومت چاہیے جو انتخابات کے دوران کیے گئے تمام وعدوں کو پورا کرے اور ان پر ثابت قدم ہوکر چلے۔ جب کی سبھی امیدوار الگ الگ مردوں کو لے کر اپنی اپنی جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ 





Body:آپ کو بتا دیں سہارنپور پارلیمنٹری سیٹ یوپی صوبے میں ہی نہیں بلکی پورے ملک کی نمبر1 سیٹ ہے۔ نیو تو سہارنپور کو ہندو مسلم اتحاد کے لیے جانا جاتا ہے لیکن سیاسی جماعت انتخابات کی تمہید برادری آنکڑو پر تیار کرتے ہیں۔ جس کے چلتے اسمبلی اور پارلیمنٹری انتخابات میں برادری کے حساب سے ہی ٹکٹ دیا جاتا ہے۔ سہارنپور پارلیمنٹری علاقے میں پانچ اسمبلی سیٹیں آتی ہیں۔ کسی سیٹ پر گجروں کی تعداد زیادہ ہے تو کہیں پر ٹھاکر اکثریت ظاہر ہوتی ہے جبکہ سہارنپور دیہات سیٹ پر چماروں کی تعداد زیادہ ہے۔ 


اگر ہم پوری پارلیمنٹری سیٹ پر بات کریں تو یہاں ٹھاکر اور سینی معاشرہ بھی کم تعداد میں نہیں ہیں۔ جبکہ قریب ساڑھے چھ لاکھ مسلمان ووٹر ہیں جو اپنی حصہ داری درج کراتے ہیں۔ نمبر1 پارلیمنٹری سیٹ پر ہوئے 2014 کے انتخابات کی بات کریں تو یہاں بھاجپا کے راگھو لکھن پال شرما نے کانگریس کے عمران مسعود کو ہراکر اس سیٹ پر اپنا قبضہ کیا تھا۔ جبکہ بہوجن سماج پارٹی کے جگدیش رانا تیسرے اور سماج وادی پارٹی کے شادان مسعود چوتھے نمبر پر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 2019 کے انتخابات میں بھی بی جے پی نے راگھو لکھن پال شرما پر اپنا اعتماد ظاہر کیا ہے۔ اور ان کو ہی اپنا امیدوار بنایا ہے۔ رگھو لکھن پال شرما ایم پی صوبے کے چیف منسٹر کمل ناتھ کی بیوی کے بھتیجے ہیں۔ اس سیٹ پر مقابلے کی بات کریں تو خاص طور پر دو پارٹیوں کے درمیاں ہیں سمٹا ہوا نظر آ رہا ہے۔۔ یعنی بی جے پی اور اتحاد امیدوار حاجی فضل الرحمن کے درمیان ہی ہار جیت ہو سکتی ہے۔ جبکہ دو بار اسمبلی اور یک پارلیمنٹری انتخابات میں ہار حاصل کر نے والی کانگریس جو ہار کی ہیٹرک چکی ہے کہ امیدوار عمران مسعود تیسرے نمبر کی لڑائی لڑتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ 2014 کے پارلیمنٹری انتخابات میں کانگریس کے امیدوار عمران مسعود کو راگھو لکھن پال نی 65070 ووٹوں سے ہرایا تھا۔ لیکن اس بار سماجوادی اور بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد کے امیدوار حاجی فضل الرحمن پہلی بار پارلیمنٹری انتخاب میں شامل ہوئے ہیں۔ حاجی فضل الرحمن یہاں سے میر کے انتخابات میں ہار گئے تھے یعنی محض 2500 ووٹ سے ہار کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔  جس کے تحت بہوجن سماج پارٹی نے ایک بار پھر پارلیمنٹری میں حاجی فضل الرحمن پر اپنا بھروسہ ظاہر کیا ہے۔ سماجوادی اور بہوجن سماج کے آنکڑوں کے لحاظ سے کانگریس اور اتحادی امیدواروں کے درمیان دوسرے نمبر کا مقابلہ رہنے والا ہے خصوصی پارٹیوں کے تینوں امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ ہونے سے یہ انتخابات بہت دلچسپ ہوتا جا رہا ہے سہارنپور پارلیمنٹری سیٹ میں 5 اسمبلی سیٹ آتی ہیں۔ جس میں بہٹ سہارنپور نگر سہارنپور دیہات دیوبند اور رامپور منی ہارن ہے۔ 


آپ کو بتا دیں کہ راگھو لکھن پال شرما کے والد نربھیے پال جوکی بی جے پی سے ایم ایل اے تھے۔ ایم ایل اے رہتے ہوئے ہی انجان بدمعاشوں نے ان قتل کر دیا تھا۔ جس کے بعد راگھو لکھن پال شرما کو بی جے پی نے امیدوار بنا کر چناو کے میدان میں بھیجا تھا اس دوران اپنے والد کی موت کی وجہ سے ان کو بھرپور ووٹ ملے اور وہ اپنے والد کی سیٹ پر ہی ایم ایل اے ہو گئے۔ اس کے بعد 2012 کے اسمبلی انتخابات میں جیت حاصل کر دوسری بار اسمبلی میں داخل ہوئے۔ دو بار اسمبلی ممبر بننے کے ساتھ 2014 میں پارلیمنٹری انتخابات میں ملک کی نمبر ایک سیٹ پر بھاجپا نے امیدوار بنا کر میدان میں بھیجا تھا۔ جہاں انتخابات میں کانگریس کے عمران مسعود کو قریب 65070 ووٹوں سے ہرا کر پارلیمنٹ میں داخل ہوئے تھے۔ مسلسل 3 انتخابات میں جیت حاصل کر پارٹی ہائی کمان کا بھروسہ جیتنے کے بعد 2019 کے انتخابات میں ایک بار پھر بی جے پی نے را گھو لکھن پال کو امیدوار بنا کر بھیجا ہے۔حالا کی اس بار سماجوادی اور بہوجن سماج پارٹی کے اتحاد سے حاجی فضل الرحمن کے ساتھ میں 2017 میں ہوئی دنگے اور فساد کے چلتے بی جے پی کے تمام ہتھکنڈے بھی فیل ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ جب کی موجودہ ایم پی راگھو لکھن پال شرما بھی اپنی جیت کا دعویٰ کررہے ہیں۔ 



کانگریس امیدوار عمران مسعود سارن پور میں ہی نہیں مغربی صوبے میں مسلم نیتا کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ عمران مسعود سابق منسٹر قاضی رشید مسعود کے بھتیجے ہیں۔ عمران مسعود وہی نیتا ہے جنہوں نے 2014 کے پارلیمنٹری انتخابات کے دوران پی ایم سیٹ کے دعویدار کے کی پر بے بنیاد اور بے وجہ کا بیان دیا تھا۔ کے تحت عمران مسعود کو جیل کی ہوا تک کھانی پڑی۔ عمران محسود 2007 میں اسمبلی انتخابات میں لڑے تھے اور سماج وادی پارٹی کے کیبنیٹ منسٹر جگدیش رانا کو ہراکر ایم ایل اے بنے تھے اس کے بعد انہوں نے نگر پالیکا چیئرمین کا انتخاب جیت کر نگرپالیکا پر قبضہ کر لیا تھا۔ خاص بات یہ ہے کہ عمران مسعود 2012 اور 2017 کے پارلیمنٹری انتخاب ہار چکے ہیں مسلسل چار انتخابات ہارنے کے بعد کانگریس نے عمران مسعود کو نہ صرف صوبے کا صدر بنا دیا بلکہ انتخابات میں ایک بار پھر سے پارلیمنٹری امید وار بنا کر میدان میں بھیجا ہے۔ 



اب بات سماجوادی اور بہوجن سماج پارٹی کے اتحادی امید وار فضل الرحمن کی۔ ویسے تو فضل الرحمن کاروباری ہیں لیکن قریب تین سال پہلے بہوجن سماج پارٹی جوائن کر 2017 میں میر کا چناؤ لڑا تھا۔ بہوجن سماج پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑیں فضل الرحمن کو اچھے خاصے ووٹ بھی مل گئے تھے لیکن محض 2000 ووٹوں سے وہ ہار گئے۔ مسلم اور چمار ووٹروں کو ایک ساتھ جوڑنے کا یہ رزلٹ رہا کی بہوجن سماج پارٹی نے پھر فضل الرحمن پر بھروسہ جتایا ہے اور اور ان کو پارلیمنٹری انتخابات میں اپنا امیدوار بنادیا ہے اس اتحاد اور کانگریس پارٹی سے دو مسلم امیدواروں کے آنے سے جہاں مسلمان ووٹر کشمکش میں ہیں وہیں بی جے پی امیدوار کا حوصلہ بڑھا ہے۔ 


اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی نے بھی یوگیش دعائیہ کو اپنا امیدوار بناکر اپنی حاضری درج کرائی ہے۔ یوگیش کاشتکار نیتا کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن دلی میں پہلی بار عام آدمی پارٹی کو ملی جیت کے بعد 2014 کے پارلیمنٹری انتخاب میں امیدوار کے طور پر شامل ہوئے تھے۔ اس دوران عام آدمی پارٹی کا عوام کے ساتھ زیادہ جڑاؤ نہیں تھا جس کے تحت صرف چھٹے نمبر ساتویں نمبر پر رہے تھے۔ باوجود اس کے عام آدمی پارٹی نے ایک بار پھر یوگیش دہیا کو امیدوار بنا کر اپنی حاضری درج کرائی ہے۔ 


سہارنپور پارلیمنٹری سیٹ پر برادری کے طور پر ووٹوں کا حساب۔ 


کل ووٹر۔ 1722580


مرد حضرات۔ 922046


خواتین۔ 800393


تھرڈ جینڈر۔ 141


ووٹ ڈالنے والی جگہ۔ 853


کل بوتھ۔ 1938


اگر ہم ووٹرز کی بات کریں تو سہارنپور پارلیمنٹری سیٹ پر قریب 6 لاکھ مسلم 3۰25 لاکھ چمار 1۰50 لاکھ سینی 60 ہزار ٹھاکر 80 ہزار کشیپ۔ 1۰25 لاکھ پنجابی 80 ہزار گجر 55 ہزار برھمن 65 ہزار پا ل 30 ہزار تیاگی اور باقی اور برادری ہیں۔ 


پارلیمنٹ 2014 میں کس امیدوار کو کتنے ووٹ ملی اور کس اسمبلی سے



امیدوار بہٹ۔ سہارنپور نگر۔ سہارنپور دیہات۔ دیوبند۔ رامپور منی حارن۔ 



راگھو لکھن پال۔ 79365۔ 133577۔ 68623۔ 104051۔ 86645


عمران مسعود۔ 89920۔ 109793۔ 84823۔ 67148۔ 56132۔ 


جگدیش رانا۔ 50582۔ 15077۔ 59742۔ 46106۔ 63192۔ 


شادان مسعود۔ 16978۔ 6718۔ 10324۔ 10834۔ 10834۔ 7882


۰۰۰۰۰۰۰۰


راگھو لکھن پال ۰۰۰۰ 472261


عمران مسعود ۰۰۰۔ 407816


جگدیش رانا ۰۰۰۰ 234699


شادان مسعود ۰۰۰۔ 52736


نوٹ۔ یہ تمام آکڑے معاشرے کی تنظیموں کے ذریعے حاصل کیے گئے ہیں کم اور زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ 





Conclusion:بائٹ 01 راگھو لکھن پال شرما بی جے پی امید وار


بائٹ02 عمران مسعود امید وار کانگریس


بائٹ03 حاجی فظلور رحمان بہوجن سماج پارٹی امید وار



رپورٹ تسلیم قریشی سہارنپور

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.