انتظامیہ اور دارالعلوم کے علماء کی گزارش کو خارج کرتے ہوئے خواتین نے کہا کہ یہ آئین کے تحفظ کی لڑائی ہے اور سی اے اے کی واپسی تک ہمارا پرامن احتجاج جاری رہے گا۔
ذرائع کے مطابق ضلع مجسٹریٹ آلوک پانڈے اور ایس ایس پی دنیش کمارپربھو نے شہر کے اہم شخصیات کے ساتھ دارالعلوم دیوبند میں میٹنگ کرکے ایک کمیٹی تشکیل دے کر انہیں احتجاج ختم کرانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
ضلع انتطامیہ نے دارالعلوم سے بھی احتجاج کو ختم کرنے کی اپیل کرنے کی گذارش کی تھی لیکن خواتین نے کمیٹی کی احتجاج کو ختم کرنے کی اپیل کو خارج کردیا۔
ضلع انتظامیہ کے ساتھ میٹنگ کے بعد دارالعلوم کی جانب سے احتجاج کو ختم کرنے کی اپیل کو خارج کرتے ہوئے خواتین نے کہا کہ یہ مذہب کی لڑائی نہیں ہے جو ہم ان کی بات مان لیں، یہ لڑائی آئین کے تحفظ کی ہے اور جب تک سی اے اے اور این آر سی واپس نہیں ہوتا ہماری لڑائی جاری رہے گی۔
خواتین کو احتجاج کے لیے پرعزم دیکھ کر ضلع انتظامیہ نے احتجاج کو غیرقانون اور قابل اعتراض قرار دیتے ہوئے سو سے زیادہ افراد کے خلاف نوٹس جاری کر کے ان سے جواب طلب کیا ہے۔
پولیس کے مطابق شہر کے کئی اہم شخصیات خواتین اور بچوں کو احتجاج کے لیے اکسا رہے ہیں۔
پولیس نے خواتین پر قابل اعتراض نعرے اور تقاریر کرنے کا بھی الزام عائد کیا ہے۔
ضلع مجسٹریٹ کی جانب سے جاری کی گئی نوٹس میں کہا کہ ہے کہ اگر شہر میں کسی طرح کا بھی تشدد ہوتا ہے اور سماجی ہم آہنگی کو ٹھیس پہنچتا ہے تو یہی لوگ اس کے ذمہ دار ہوں گے۔
ایک میٹنگ کے دوران آلوک پانڈے اور ایس ایس پی دنیش کمار نے این پی آر کے حوالے سے لوگوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ این پی آر میں کسی طر ح کے دستاویز کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
این آرسی پر حکومت نے پارلیمنٹ میں تحریری طور پر جواب دیا ہے اور جس میں این آرسی کے نفاذ پر کوئی بات نہ ہونے کی بات کہی گئی ہے، ایسے حالات میں اب دیوبند میں خواتین کو اپنا احتجاج ختم کردینا چاہئے۔
واضح رہے کہ دیوبند کے عیدگاہ میدان میں شہریت ترمیمی قانون، این پی آر اور این آر سی کے خلاف گزشتہ گیارہ دنوں سے خواتین کا غیر معینہ احتجاج جاری ہے اور ضلع انتطامیہ احتجاج کو ختم کرانے کے لیے ہر ممکن اقدام کررہا ہے۔