ETV Bharat / city

اترپردیش میں اویسی کی سیاسی سرگرمیوں سے علماء ناخوش

بہار کے بعد اب اتر پردیش میں بھی اسد الدین اویسی انتخابی سرگرمیاں شروع کر رہے ہیں، جس پر اتر پردیش کے علماء نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ’سیکولر پارٹیوں کو نقصان پہنچے گا۔‘

اترپردیش میں اویسی کی سیاسی سرگرمیوں سے علماء نا خوش
اترپردیش میں اویسی کی سیاسی سرگرمیوں سے علماء نا خوش
author img

By

Published : Dec 30, 2020, 6:47 PM IST

ریاست اتر پردیش میں بھی انتخابات کے لیے سیاسی سرگرمیاں تیز ہونے لگی ہیں، حیدر آباد سے رکن پارلیمنٹ اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی نے بھی بہار کے بعد مغربی بنگال اور اترپردیش میں اپنی آمد کا اعلان کر دیا ہے اور گزشتہ دنوں انہوں نے لکھنؤ پہنچ کر کچھ سیاسی ملاقاتیں بھی کی تھیں، جس سے صوبہ میں مسلم سیاست کو لیکر ہلچل تیز ہوگئی۔

اس سلسلہ میں ای ٹی وی بھارت نے علماء سے گفتگو کی انہوں نے صاف کہاکہ ’’اسدالدین اویسی کے اترپردیش میں آنے سے سیکولر پارٹیوں کو نقصان ہوگا، جس کا خمیازہ مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑیگا۔‘‘

اترپردیش میں اویسی کی سیاسی سرگرمیوں سے علماء نا خوش

اترپردیش کی سیاست اور انتخاب کے متعلق ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے جامعہ فاطمة الزہرہ اینگلو عربک، دیوبند کے مہتمم مولانا لطف الرحمن صادق قاسمی نے کہاکہ ’’موجودہ حالات میں الیکشن کی جو پوزیشن ہے وہ نہایت سنجیدہ ہے، حیدر آباد کے علاوہ جہاں جہاں جس علاقہ میں اویسی صاحب الیکشن لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں یا لڑ رہے ہیں وہ دیگر سیکولر پارٹیوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس سے براہ راست بی جے پی کو جس درجہ کا فائدہ پہنچ رہاہے وہ قابل غور ہے۔‘‘

انہوں نے بہار انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’اویسی صاحب کے سبب گٹھ بندھن کو نقصان ہوا جبکہ بی جے پی کو خاطر خواہ فائدہ پہنچا ہے۔‘‘

انہوں نے اویسی کے ان اقدامات کی تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’نہ معلوم کس کی شہ پر اویسی صاحب دیگر ریاستوں میں انتخابات میں حصہ لے ہیں، وہ اگر بنگال میں جاتے ہیںتو یہ بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔‘‘

مولانا لطف الرحمن نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’دہائیوں سے رکن پارلیمان اور محبوب لیڈر ہونے کے باوجود بھی اویسی آندھرا یا تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ نہ بن سکے، اب کیا وہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بننے کے خواہاں ہیں!‘‘

مولانا نے صراحتا کہا کہ ’’ایسا معلوم ہوتاہے کہ وہ بی جے پی کے ایجنٹ بن کر کام کر رہے ہیں، ا سلئے انہیں قوم و ملت کی فکر کرنی چاہئے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اویسی کے یو پی میں انتخابات میں حصہ لینے سے سیکولر ووٹ تقسیم ہو جائیں گے جس کا براہ راست فائدہ بھارتیہ جنتار پارٹی کو ہوگا۔

اسد الدین اویسی کے ریاست اتر پردیش میں انتخابی سیاست سے متعلق جامعہ حسینہ کے استاذ مفتی طارق عثمانی نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے مفتی طارق نے کہا کہ ’’اتر پردیش ایک حساس علاقہ ہے، اور یہاں سیکولر پارٹیوں کو منظم ہونا چاہئے، تاہم اگر اسد الدین اویسی یہاں انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، جو انکا جمہوری حق ہے، تو اس سے سیکولر ووٹ تقسیم ہو جائے گا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس وقت پورے ملک میں ایک خاص قسم کی فکر و سوچ رکھنے والی قوتیں اور طاقتیں مل کر یہاں کے جمہوری اور سیکولر نظام کے تانے بانے کو بکھیرنا چاہتی ہیں، جس کا ہمیں ڈٹ کر اور اتحاد سے مقابلہ کرنا چاہئے۔‘‘

اسد الدین اویسی کے کسی خاص پارٹی کا ایجنٹ ہونے سے متعلق انہوں نے کہا: ’’میں سیاسی طور پر زیادہ ماہر نہیں، البتہ اسد الدین اویسی کو یہ سوچنا چاہئے کہ ان کے یو پی میں انتخابات میں حصہ لینے سے کس کو فائدہ پہنچے گا؟‘‘

ریاست اتر پردیش میں بھی انتخابات کے لیے سیاسی سرگرمیاں تیز ہونے لگی ہیں، حیدر آباد سے رکن پارلیمنٹ اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی نے بھی بہار کے بعد مغربی بنگال اور اترپردیش میں اپنی آمد کا اعلان کر دیا ہے اور گزشتہ دنوں انہوں نے لکھنؤ پہنچ کر کچھ سیاسی ملاقاتیں بھی کی تھیں، جس سے صوبہ میں مسلم سیاست کو لیکر ہلچل تیز ہوگئی۔

اس سلسلہ میں ای ٹی وی بھارت نے علماء سے گفتگو کی انہوں نے صاف کہاکہ ’’اسدالدین اویسی کے اترپردیش میں آنے سے سیکولر پارٹیوں کو نقصان ہوگا، جس کا خمیازہ مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑیگا۔‘‘

اترپردیش میں اویسی کی سیاسی سرگرمیوں سے علماء نا خوش

اترپردیش کی سیاست اور انتخاب کے متعلق ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے جامعہ فاطمة الزہرہ اینگلو عربک، دیوبند کے مہتمم مولانا لطف الرحمن صادق قاسمی نے کہاکہ ’’موجودہ حالات میں الیکشن کی جو پوزیشن ہے وہ نہایت سنجیدہ ہے، حیدر آباد کے علاوہ جہاں جہاں جس علاقہ میں اویسی صاحب الیکشن لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں یا لڑ رہے ہیں وہ دیگر سیکولر پارٹیوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس سے براہ راست بی جے پی کو جس درجہ کا فائدہ پہنچ رہاہے وہ قابل غور ہے۔‘‘

انہوں نے بہار انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’اویسی صاحب کے سبب گٹھ بندھن کو نقصان ہوا جبکہ بی جے پی کو خاطر خواہ فائدہ پہنچا ہے۔‘‘

انہوں نے اویسی کے ان اقدامات کی تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’نہ معلوم کس کی شہ پر اویسی صاحب دیگر ریاستوں میں انتخابات میں حصہ لے ہیں، وہ اگر بنگال میں جاتے ہیںتو یہ بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔‘‘

مولانا لطف الرحمن نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’دہائیوں سے رکن پارلیمان اور محبوب لیڈر ہونے کے باوجود بھی اویسی آندھرا یا تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ نہ بن سکے، اب کیا وہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بننے کے خواہاں ہیں!‘‘

مولانا نے صراحتا کہا کہ ’’ایسا معلوم ہوتاہے کہ وہ بی جے پی کے ایجنٹ بن کر کام کر رہے ہیں، ا سلئے انہیں قوم و ملت کی فکر کرنی چاہئے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اویسی کے یو پی میں انتخابات میں حصہ لینے سے سیکولر ووٹ تقسیم ہو جائیں گے جس کا براہ راست فائدہ بھارتیہ جنتار پارٹی کو ہوگا۔

اسد الدین اویسی کے ریاست اتر پردیش میں انتخابی سیاست سے متعلق جامعہ حسینہ کے استاذ مفتی طارق عثمانی نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔

ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے مفتی طارق نے کہا کہ ’’اتر پردیش ایک حساس علاقہ ہے، اور یہاں سیکولر پارٹیوں کو منظم ہونا چاہئے، تاہم اگر اسد الدین اویسی یہاں انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، جو انکا جمہوری حق ہے، تو اس سے سیکولر ووٹ تقسیم ہو جائے گا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس وقت پورے ملک میں ایک خاص قسم کی فکر و سوچ رکھنے والی قوتیں اور طاقتیں مل کر یہاں کے جمہوری اور سیکولر نظام کے تانے بانے کو بکھیرنا چاہتی ہیں، جس کا ہمیں ڈٹ کر اور اتحاد سے مقابلہ کرنا چاہئے۔‘‘

اسد الدین اویسی کے کسی خاص پارٹی کا ایجنٹ ہونے سے متعلق انہوں نے کہا: ’’میں سیاسی طور پر زیادہ ماہر نہیں، البتہ اسد الدین اویسی کو یہ سوچنا چاہئے کہ ان کے یو پی میں انتخابات میں حصہ لینے سے کس کو فائدہ پہنچے گا؟‘‘

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.