ETV Bharat / city

وادیٔ کشمیر کا پُرفضا مقام گول گلاب گڑھ

گول گلاب گڑھ ایک ایسا گاؤں ہے جس کے چاروں طرف سرسبز و شاداب درخت اونچے اونچے پہاڑ اور سیر وتفریح کے مقامات ہیں جہاں پر لوگ میلوں دور سفر کرکے گول گلاب گڑھ کی سیر کرتے ہیں۔ جہاں پر بہت خوبصورت جگہیں موجود ہیں۔ جن میں راماکنڈ، دگنٹاپ، گوڑا گلی گول، گوڑا گلی سلدار اور جبڑاکشی وغیرہ وغیرہ شامل ہیں.

گول گلاب گڑھ کی تاریخ
گول گلاب گڑھ کی تاریخ
author img

By

Published : Oct 30, 2021, 4:18 PM IST

Updated : Oct 30, 2021, 7:50 PM IST


گول گلاب گڑھ کشمیر وادی کا پیارا نام ہے۔ جو آج نہ صرف ریاست جموں و کشمیر میں بلکہ پورے ملک میں مشہور ہے۔ یہ وہ نام ہے جو نہ مٹنے والا ہے، جو انمٹ نقوش چھوڑنے والا ہے۔
قدرتی حسن سے مالا مال یہ سرزمین گول گلاب گڑھ انسانیت کے دلوں پر دستخط دیتی ہے کہ آؤ میرے دامن میں قدرتی بے شمار نعمتوں سے لطف اندواز ہوجاؤ۔یہاں کی پہاڑیاں سیاحوں کے قلوب کو خوش کردیتی ہے۔ لیکن بدنصیبی یہ ہے کہ ان دونوں حصوں کو تقسیم کر لیا گیا۔ یہ دونوں خطے اس لیے جڑھ ہوئے تھے۔کیوکہ یہاں کے رسوم ورواج یہاں کا آپسی میل جول زمانہ قدیم سے جڑا ہوا تھا۔ لیکن جوں جوں وقت بدلتا گیا ان دونوں حصوں کو وقت اور زمانہ کی تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ بدلا گیا۔ بلکہ اس وقت بھی ریاست میں اس کی پہچان گول گلاب گڑھ کے نام سے ہی ہے۔

گول گلاب گڑھ کی تاریخ
گول گلاب گڑھ کی تاریخ
اگرچہ اس وقت گول اور گلاب گڑھ کے دو الگ الگ حصے ہیں ایک مشرق میں جب کہ دوسرا مغرب میں۔ لیکن اس کا پرانا نام ابھی بھی قائم اور دائم ہے۔ گول گلاب گڑھ ایک ایسا گاؤں ہے جس کے چاروں طرف سرسبز و شاداب درخت اونچے اونچے پہاڑ اور سحر و تفریحی کے مقامات ہیں جہاں پر لوگ میلوں دور سفر کرکے گول گلاب گڑھ کی سیر کرتے ہیں۔ جہاں پر بہت خوبصورت جگہیں موجود ہیں۔ جن میں راماکنڈ، دگنٹاپ، گوڑا گلی گول، گوڑا گلی سلدار اور جبڑاکشی وغیرہ وغیرہ شامل ہیں. گوڑاگلی ایک ایسا تاریخی مقام ہے۔ جہاں پر پتھروں کو تراش کر مختلف قسم کے گھوڑے اور دیگر بہت ساری تصویریں پتھروں پر تراشی ہوئی ہیں. جس سے یہ تاریخی ثبوت ملتا ہے کہ گول گلاب گڑھ میں زمانہ قدیم سے لوگ رہتے ہیں۔
گول گلاب گڑھ کی تاریخ
گول گلاب گڑھ کی تاریخ
گول گلاب گڑھ کی یہ خوبصورت پہاڑیاں سیاحوں کو اپنی جانب مائل کرتی ہیں۔ آج اگر گول گلاب گڑھ ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے۔لیکن قبل ازیں ہمارے بزرگوں نے غربت کی وجہ سے بہت ساری مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ تب ہمارے بزرگوں نے ریاسی سے راشن اٹھاکر گول گلاب گڑھ کے مختلف حصوں تک پہنچایا ہے۔

گول گلاب گڑھ سے ہمارے نمائندے مہجور ملک نے بتایا کہ گول گلاب گڑھ کا نام مہاراجہ گلاب سنگھ کے نام سے منسوب ہے۔ جب کہ اس گاؤں کا اصلی نام ہرگام تھا۔ اس کے دوران ہی یہاں نيابت ہوا کرتی تھی۔ اس نیابت کے ساتھ دمحال ہنجیپورا اور ضلع کلگام کے بالائی علاقہ نيابت گلاب گڑھ کے ساتھ تھے۔ سنہ1947ء کے بعد جموں وکشمیر میں شیخ محمد عبدالله کی حکومت کے دورن کلگام کے ان علاقہ جات کو نيابت گلاب گڑھ سے الگ کرکے کلگام کے ساتھ شامل کیا۔ سنہ 1947 سے پہلے گول کی نيابت ارناس ہوا کرتی تھی۔ سنہ 1951 میں اسمبلی حلقہ کا نام بی گلاب گڑھ رکھا گیا۔
سنہ 1966ء میں مہور میں تحصیل قائم کی گئی۔ اس کے بعد گول میں نيابت بنی۔ 2014 میں گول اور گلاب گڑھ کے دونوں خطوں میں سب ڈیویژن قائم کیا گیا۔ ایک گول اور دوسرا مہور.

گول گلاب گڑھ کا ایسا اسکول جس کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ یہ اسکول گول گلاب گڑھ کا پرانا اسکول ہے۔ بات ہورہی ہے گورنمنٹ ہائی اسکول جملان کی۔ اس اسکول سے چمکتے ستارے نکلے ہیں جنہیں نے گول گلاب گڑھ کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کا نام روشن کیا ہے۔ لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دنیا بدل گئی گول گلاب گڑھ کا نقشہ بدل گیا لیکن گورنمنٹ ہائی اسکول جملان کا نہ نقشہ بدلا نہ اس اسکول کا نام بدلا۔


گول گلاب گڑھ کشمیر وادی کا پیارا نام ہے۔ جو آج نہ صرف ریاست جموں و کشمیر میں بلکہ پورے ملک میں مشہور ہے۔ یہ وہ نام ہے جو نہ مٹنے والا ہے، جو انمٹ نقوش چھوڑنے والا ہے۔
قدرتی حسن سے مالا مال یہ سرزمین گول گلاب گڑھ انسانیت کے دلوں پر دستخط دیتی ہے کہ آؤ میرے دامن میں قدرتی بے شمار نعمتوں سے لطف اندواز ہوجاؤ۔یہاں کی پہاڑیاں سیاحوں کے قلوب کو خوش کردیتی ہے۔ لیکن بدنصیبی یہ ہے کہ ان دونوں حصوں کو تقسیم کر لیا گیا۔ یہ دونوں خطے اس لیے جڑھ ہوئے تھے۔کیوکہ یہاں کے رسوم ورواج یہاں کا آپسی میل جول زمانہ قدیم سے جڑا ہوا تھا۔ لیکن جوں جوں وقت بدلتا گیا ان دونوں حصوں کو وقت اور زمانہ کی تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ بدلا گیا۔ بلکہ اس وقت بھی ریاست میں اس کی پہچان گول گلاب گڑھ کے نام سے ہی ہے۔

گول گلاب گڑھ کی تاریخ
گول گلاب گڑھ کی تاریخ
اگرچہ اس وقت گول اور گلاب گڑھ کے دو الگ الگ حصے ہیں ایک مشرق میں جب کہ دوسرا مغرب میں۔ لیکن اس کا پرانا نام ابھی بھی قائم اور دائم ہے۔ گول گلاب گڑھ ایک ایسا گاؤں ہے جس کے چاروں طرف سرسبز و شاداب درخت اونچے اونچے پہاڑ اور سحر و تفریحی کے مقامات ہیں جہاں پر لوگ میلوں دور سفر کرکے گول گلاب گڑھ کی سیر کرتے ہیں۔ جہاں پر بہت خوبصورت جگہیں موجود ہیں۔ جن میں راماکنڈ، دگنٹاپ، گوڑا گلی گول، گوڑا گلی سلدار اور جبڑاکشی وغیرہ وغیرہ شامل ہیں. گوڑاگلی ایک ایسا تاریخی مقام ہے۔ جہاں پر پتھروں کو تراش کر مختلف قسم کے گھوڑے اور دیگر بہت ساری تصویریں پتھروں پر تراشی ہوئی ہیں. جس سے یہ تاریخی ثبوت ملتا ہے کہ گول گلاب گڑھ میں زمانہ قدیم سے لوگ رہتے ہیں۔
گول گلاب گڑھ کی تاریخ
گول گلاب گڑھ کی تاریخ
گول گلاب گڑھ کی یہ خوبصورت پہاڑیاں سیاحوں کو اپنی جانب مائل کرتی ہیں۔ آج اگر گول گلاب گڑھ ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے۔لیکن قبل ازیں ہمارے بزرگوں نے غربت کی وجہ سے بہت ساری مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ تب ہمارے بزرگوں نے ریاسی سے راشن اٹھاکر گول گلاب گڑھ کے مختلف حصوں تک پہنچایا ہے۔

گول گلاب گڑھ سے ہمارے نمائندے مہجور ملک نے بتایا کہ گول گلاب گڑھ کا نام مہاراجہ گلاب سنگھ کے نام سے منسوب ہے۔ جب کہ اس گاؤں کا اصلی نام ہرگام تھا۔ اس کے دوران ہی یہاں نيابت ہوا کرتی تھی۔ اس نیابت کے ساتھ دمحال ہنجیپورا اور ضلع کلگام کے بالائی علاقہ نيابت گلاب گڑھ کے ساتھ تھے۔ سنہ1947ء کے بعد جموں وکشمیر میں شیخ محمد عبدالله کی حکومت کے دورن کلگام کے ان علاقہ جات کو نيابت گلاب گڑھ سے الگ کرکے کلگام کے ساتھ شامل کیا۔ سنہ 1947 سے پہلے گول کی نيابت ارناس ہوا کرتی تھی۔ سنہ 1951 میں اسمبلی حلقہ کا نام بی گلاب گڑھ رکھا گیا۔
سنہ 1966ء میں مہور میں تحصیل قائم کی گئی۔ اس کے بعد گول میں نيابت بنی۔ 2014 میں گول اور گلاب گڑھ کے دونوں خطوں میں سب ڈیویژن قائم کیا گیا۔ ایک گول اور دوسرا مہور.

گول گلاب گڑھ کا ایسا اسکول جس کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ یہ اسکول گول گلاب گڑھ کا پرانا اسکول ہے۔ بات ہورہی ہے گورنمنٹ ہائی اسکول جملان کی۔ اس اسکول سے چمکتے ستارے نکلے ہیں جنہیں نے گول گلاب گڑھ کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کا نام روشن کیا ہے۔ لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ دنیا بدل گئی گول گلاب گڑھ کا نقشہ بدل گیا لیکن گورنمنٹ ہائی اسکول جملان کا نہ نقشہ بدلا نہ اس اسکول کا نام بدلا۔

Last Updated : Oct 30, 2021, 7:50 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.