ریاست بہار میں اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے اور ریاستی حکومت نے اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے اردو ڈائریکٹوریٹ کے نام سے ایک شعبہ قائم کر رکھا ہے جس کے تحت اردو کے فروغ کے لیے مختلف طرح کی سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں، اسی کے تحت لوگوں میں اردو کے تئیں بیداری پیدا کرنے کے لیے ہر ضلع میں سیمینار اور مشاعرے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
ایک ضلع میں ہونے والے پروگرام میں حکومت دو لاکھ سے زیادہ روپئے خرچ کرتی ہے اور یہ نظارہ اسی کڑی کے طور پر بانکا میں زبان کی طرف سے 26 فروری کو ہوئے منعقد پروگرام کا ہے جہاں سامعین کے طور پر بمشکل 20 سے 30 لوگ موجود تھے۔ ہال کی زیادہ تر کرسیاں خالی نظر آئیں۔ اس پر اقلیتی فلاح افسر راہل کمار کا کہنا تھا کہ اساتذہ کے ہڑتال کی وجہ سے سامعین پروگرام میں شامل نہیں ہوپائے۔
اس ایک روزہ پروگرام کے پہلے سیشن میں مقالات پڑھے گئے، مقالات پیش کرنے والوں میں پروفیسر شاہد رضا جمال، ڈاکٹر ارشد رضا اور دیگر تین لوگ شامل تھے۔ جب کہ دوسرے سیشن میں مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں 10 شعراء نے اپنے کلام پیش کیے لیکن شاعروں کو داد دینے والوں کی تعداد اس وقت تک بمشکل 20 رہی ہوگی۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ اس طرح کے پروگرام کا کوئی مقصد ہوتا ہے یا صرف خانہ پری کےلیے حکومت کے پیسوں کا بےجا استعمال کیا جاتا ہے۔
سامعین کے نہ ہونے کی وجہ سے پروگرام دو گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا اور سامعین کے نہ ہونے کی وجوہات کے بارے میں کسی کے پاس تشفی بخش جواب نہیں تھا، کچھ کا کہنا تھا کہ منتظمین کے اردو حلقوں تک پیغام رسانی میں کوتاہی کا نتیجہ یہ ہوا کہ پروگرام میں سامعین نہیں پہنچے۔ اگر پروگرام کے بارے میں لوگوں کو واقفیت ہوتی تو وہ ضرور آتے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر لاکھوں روپئے خرچ کرکے کرائے گئے اس پروگرام سے حاصل کیا؟