کاسۂ دل سے لہو آنکھوں سے پانی لے گیا۔ اپنا قصہ کہہ کے وہ میری کہانی لے گیا
جیسے مشہور اشعار کے خالق اور اردو شاعری کو وقار بخشنے والے شاعر سلطان اختر ہم سے جدا ہوگئے۔ بعد نماز ظہر حاجی حرمین قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔
سلطان اختر کے پسماندگان میں دو بیٹے ہیں جبکہ کچھ برس قبل ہی ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا تھا جبکہ ایک بیٹا چند ماہ پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہوا ہے۔
گزشتہ چار پانچ دنوں میں ہی اردو ادب کی کئی نامور ہستیاں ہم سے جدا ہوئی ہیں جس میں مشہور ناول نگار مشرف عالم ذوقی، مناظر عاش ہرگانوی، پروفیسر اشتیاق ایوبی وغیرہ کا نام شامل ہیں۔ ان کے انتقال سے غزلیہ شاعری کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے منفرد لب و لہجے سے غزلیہ شاعری میں اپنی شناخت بنائی تھی۔
اس عظیم شاعر کی جدید شاعری کی گونج پوری اردو دنیا میں محسوس کی گئی۔ یوں انہوں نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن ان کی پہچان اور شناخت غزل کے حوالے سے تھی۔ بہار اردو اکادمی کے نائب صدر رہتے ہوئے سلطان اختر نے اردو زبان و ادب کو مثالی تعاون پیش کیا۔
سلطان اشرف (قلمی نام سلطان اختر) ولد الحاج محمد اشرف الدین اور رابعہ خاتون کے یہاں 16 ستمبر سنہ 1940 کو (تعلیمی سند کے مطابق 1942) اپنے آبائی وطن سہسرام میں پیدا ہوئے۔ ابتداء میں مذہبی تعلیم حاصل کی اور مدرسہ خیریہ نظامیہ سے مولوی کی سند حاصل ہوئی۔
سہسرام ہائی اسکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ ایس پی جین کالج سے بی اے کر رہے تھے کہ جمشید پور کے لیبر ڈپارٹمنٹ میں نوکری مل گئی اور تعلیم کو خیر باد کہنا پڑا۔ ستمبر 1968 سے حکومت بہار کے شعبہ حوالات (جیل محکمہ) میں ملازمت حاصل ہوئی تو مستقل طور پر پٹنہ میں قیام رہا۔ 3ستمبر سنہ 2000 کو ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور پھلواری شریف میں تعمیر شدہ ذاتی مکان میں رہنے لگے۔
سلطان اختر نے 1975سے شعر کہنا شروع کیا۔ ابتدا ء میں مانوس سہسرامی اور جعفر خاں اثر لکھنوی سے اصلاح لی لیکن کچھ ہی دنوں بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ ان کی پہلی مطبوعہ غزل کا مطلع تھا۔
وجہِ بربادی دل و غم و آلام کا چاند
دوستو ڈوب گیا گردشِ ایام کا چاند
1967 میں رسالہ 'فنون' لاہور کے جدید غزل نمبر میں بیک وقت ان کی دس غزلیں شائع ہوئیں جس کے سبب ان کی ادبی شناخت کو استحکام حاصل ہوا۔ اس کے بعد ہند و پاک کے معیاری رسالوں، ریڈیو، ٹی وی پروگرامز اور مشاعروں کے توسط سے رفتہ رفتہ وہ ملک گیر شہرت کے حامل بن گئے۔
سلطان اختر کو مختلف اداروں کی جانب سے انعامات و اعزازات بھی ملے لیکن وہ اپنے کسی مجموعہ کلام کی اشاعت سے ایک عرصہ تک بے نیاز رہے۔ سنہ 1994 میں ان کی 90 غزلوں کا مجموعہ 'انتساب' ہے۔ ان کی بعض غزلیں بے حد مقبول ہوئیں اور مشہور گلوکاروں کے کیسٹ میں شامل ہیں۔ ان کی شخصیت اور شاعری سے متعلق تحقیقی مقالہ پٹنہ یونیورسٹی میں زیر ترتیب ہے۔
سلطان اختر نے مختلف اصناف سخن پہ طبع آزمائی کی ہے۔ حمد و نعت یا رباعی میں بھی ان کا منفرد رنگ سخن نمایاں رہتا ہے لیکن وہ بنیادی طور پر غزل ہی کے شاعر تھے اور ان کی شناخت بھی ایک جدید غزل گو کی حیثیت سے ہی ہے۔
پروفیسر وہاب اشرفی نے اس نکتے پہ خاصا زور دیا ہے کہ جدیدیت کی اچھائیاں تو ان کے یہاں موجود ہیں لیکن اس کی خرابیاں اس کے چیستانی ابہام سے سلطان اختر کا رشتہ نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ روایت کی آگہی نے انہیں قید نہیں کیا اور وہ عصری مزاج و میلان سے وابستہ بھی رہے لیکن فیشن پرستی انہیں چھو کر بھی نہیں گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا کلام عصری زندگی کے نقوش بہ تمام و کمال سامنے آتے رہے۔
سلطان اختر کے انتقال پر سماجی، سیاسی، ادبی اور صحافتی دنیا نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
ان کی موت پر اظہار تعزیت کرنے والوں میں اردو کارواں کے صدر و مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی کے سابق شیخ الجامعہ پروفیسر اعجاز علی ارشد، اردو مشاورتی کمیٹی کے سابق صدر نشیں شفیع مشہدی، بہار پبلک سروس کمیشن کے ممبر امتیاز احمد کریمی، حلقہ ادب بہار کے صدر ایس ایم اشرف فرید و جنرل سکریٹری فخر الدین عارفی، مجلس اردو صحافت کے صدر، اردو کارواں کے نائب صدر اور ہفت روزہ نقیب کے مدیر مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ، اردو کارواں کے نائب صدر مشتاق احمد نوری، اردو کارواں کے نائب صدر پروفیسر صفدر امام قادری، اردو کارواں کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر ریحان غنی، اردو کونسل ہند کے صدر و سابق وزیر شمائل نبی، ناظم اعلیٰ ڈاکٹر اسلم جاوداں، ناظم ڈاکٹر انوارالہدیٰ، علمی مجلس بہار کے جنرل سکریٹری پرویز عالم، ڈاکٹر اظہار احمد سابق ایم ایل اے، کانگریس رہنما ڈاکٹر شکیل الزماں انصاری، باری اعظمی، فہیم احمد، معین گریڈیہوی، اثر فریدی، ناشاد اورنگ آبادی، قوس صدیقی، شکیل سہسرامی، عارف انصاری، مولانا ابولکلام قاسمی، شہزاد انور انصاری، کلیم اختر شفیق، کامران غنی صبا، منصور خوشتر، سید مظفر عالم ضیاء افتخار عاکف، وغیرہ کے نام شامل ہیں۔