مرکزی حکومت نے ہر شہری کو خود کفیل بننے کا کہہ تو دیا ہے مگر اس میں حکومت کی کتنی حصہ داری ہے یہ کہنا مشکل ہے۔ مگر آج کے وقت میں کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو خود کفیل بنانے کی جدوجہد کر رہے ہیں تاکہ کسی کے سہارے زندگی نہ گزاری جائے۔
بہار میں ضلع ارریہ کے رہائشی محمد عمر حسن نے اپنی زندگی یتیم بچیوں کی تعلیم اور انہیں خود کفیل بنانے کے لئے وقف کر دی ہے۔
ارریہ کے فاربس گنج سب ڈویژن کے رام پور فقیرنا ٹولہ واقع 'جامعہ خیر النساء یتیم خانہ' نام سے ایک ادارہ قائم ہے جس کا واحد مقصد یتیم بچیوں کو مفت تعلیم و تربیت کے ساتھ سلائی کڑھائی سکھا کر انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔
محمد عمر کی یہ محنت اور لگن گزشتہ پانچ برسوں سے جاری ہے۔ محمد عمر گاؤں گاؤں گھوم کر ایسی بے سہارا بچیاں تلاش کرتے ہیں جو والدین کے سایے سے محروم ہیں، وہ یتیم بچیوں کو اپنے ساتھ لے آتے ہیں اور انہیں تعلیم کے ساتھ ہنرمند بھی بناتے ہیں۔ اس کام میں ان کی اہلیہ کا بھی انہیں تعاون حاصل ہے، دونوں مل کر اس کام کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔ اب تک یہاں سے درجنوں طالبات تعلیم حاصل کر کے مختلف شعبوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
ادارہ کے فلاحی کاموں کی شہرت سن کر لکھنؤ کی رضیہ فاؤنڈیشن نے یہاں زیرتعلیم بچیوں کی سلائی کڑھائی کا انتظام کیا اور دس سلائی مشینیں محمد عمر کے حوالے کر دیں۔ آج اس علاقے سے بڑی تعداد میں یتیم بچیاں سلائی کڑھائی کا فن سیکھ کر خود کفیل بننے کی راہ پر گامزن ہیں۔
سلائی سیکھ رہی طالبہ شگوفہ کہتی ہیں کہ آج کے دور میں لڑکیوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا بہت ضروری ہے، ہم کسی کے محتاج نہیں ہونا چاہتے، اگر ہمارے ہاتھوں میں ہنر ہوگا تو دو پیسے کما سکتے ہیں۔
بچیوں کو یہاں تین ماہ کا ایک خاص کورس کرایا جاتا ہے جس میں انہیں خواتین کے ملبوسات کی سلائی سکھائی جاتی ہے۔ اس کے لئے الگ سے باضابطہ ٹرینر بھی مقرر ہیں۔
محمد عمر کی یہ کوشش قابل تعریف ہے اور دوسروں کے لیے ایک سبق بھی۔ جنہوں نے حکومت سے تعاون کے بغیر بھی یتیم بچیوں کی تعلیم و تربیت کا اس طرح سے انتظام کیا ہے۔
معاشرے میں یتیم بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اس طرح کی کوششیں شروع ہوں تو یہ ایک اچھی پہل ہوگی، اگر دل میں نیک جذبہ ہو تو کوئی مشکل آڑے نہیں آتی اور محمد عمر نے اپنے حوصلے اور لگن سے اسے کر دکھایا ہے۔