بہار کے دار الحکومت پٹنہ کے سبزی باغ میں احتجاج کے پورے 33دن ہو چکے ہیں، احتجاجی مقام پر موجود محمد ہلا ل الدین کاکہنا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون ، این آر سی اور این پی سمیت حکومت کے بعض دیگر فیصلے نہ صرف یہ کہ دستورِ ہند کے مزاج کے خلاف ہیں بلکہ یہ عوام کو پریشان کرنے والے ہیں اور ان کی وجہ سے پورے ملک میں ایک افرا تفری کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔
جہاں یہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہندوراشٹر کے قیام کی طرف پیش قدمی کی راہ ہموار کرنے والا بنیادی فیصلہ ہے وہیں ملک کے اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کی ایک تکنیک بھی ہے۔
ہر بھارتی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ممکنہ قانونی وسائل سے اس قانون کے خلاف کھڑا ہو۔
ملک کی عظیم اکثریت اس قانون کو غلط سمجھتی ہے اور عام ہندوستانیوں کی ایک اچھی تعداد اس قانون کے خلاف سرگرم جد و جہد کر رہی ہے اس جدو جہد کی قیادت کوئی سیاسی یا مذہبی لیڈر نہیں کر رہا ہے بلکہ خود عوام کر رہی ہے اور طلبہ، نوجوان اور بطورِ خاص خواتین نے پورے عزم و ہمت کے ساتھ اس قانون کے خلاف جدو جہد چھیڑ رکھی ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک دو راہے پر کھڑا ہے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ میدانِ عمل میں سرگرم ان ماؤں ، بہنوں، طلبہ، نوجوانوں، اور جہد کاروں کی حوصلہ افزائی کرے۔ ساتھ ہی برادران وطن جو غلط فہمی کا شکار ہیںکہ یہ قانون ان کے خلاف نہیں ہے انہیں بھی سمجھانے کی کوشش کریںتاکہ لوگ اس قانون کے مضر اثرات سے باخبر ہوسکیں اور وہ بھی اس تحریک میں شریک ہوں کیونکہ یہ قانون غریبوں ، اقلیتوں ، دلتوں ، قبائلیوں سمیت مظلوم طبقات کے خلاف ہے۔اگر یہ قانون ختم نہیں ہوا تو اس کے سنگین اثرات مرتب ہوںگے ۔
انہوں نے یہ بھی کہاکہ این پی آر بھی انتہائی خطرناک عمل ہے جسے فوری طور پر روکا جانا چاہئے کیونکہ یہ این آر سی کا پہلا زینہ ہے اور اگر این پی آر ہو گیا تو گویا کہ این آر سی بھی ہو گیا ۔ اس لئے ہم تمام لوگوں کو سی اے اے کے ساتھ ساتھ این آرسی اور این پی آر کی بھی مخالفت کرنی چاہئے اور ریاستی ومرکزی حکومت سے پرزرو مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ اس کام سے باز آئے ۔