پٹنہ: بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار (Nitish Kumar on Alcohol) نے شراب بندی (Liquor Prohibition In Bihar) کو لے کر پولیس کو سختی کرنے کا حکم دیا ہے۔ بہار پولیس (Bihar Police) اب ہر ضلع میں سختی کر رہی ہے۔ لیکن اسی دوران پٹنہ سے ایک خبر آئی کہ شادی میں پولیس بغیر کسی خاتون پولیس کے خواتین کے کمرے میں داخل ہو کر تلاشی لے رہی ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے سی ایم نتیش کمار نے کہا کہ ایسی شکایت ملتی ہے کہ شادی میں شراب دی جاتی ہے۔ اس لیے پولیس کو سخت کارروائی کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
پٹنہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ شراب پینا غیر قانونی ہے۔ جس سے سختی سے نمٹا جا رہا ہے۔ ایسا کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ صحافیوں نے سوال کیا کہ پولیس اچانک کہیں بھی پہنچ جارہی ہے جس سے لوگ خوفزدہ ہو گئے ہیں۔ اس پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ پولیس اپنا کام بخوبی انجام دے رہی ہے اور بہت جلد اس کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔
نتیش کمار نے کہا کہ پولیس انتظامیہ کو دیے گئے حکم کے مطابق وہ اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں۔ جہاں بھی شراب کی دستیابی کی خبر ملتی ہے پولیس وہاں پہنچ جاتی ہے۔ لوگوں کو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے''۔
درحقیقت کل رات ایک شادی کی تقریب میں پولیس کی ایک ٹیم پٹنہ کے رام کرشن نگر تھانہ علاقے میں ایک بینک ویٹ ہال میں تلاشی لینے پہنچی۔ جہاں خواتین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس کے باوجود پٹنہ پولس نے خفیہ اطلاع کی بنیاد پر شراب پکڑنے کے لیے خواتین کے کمرے کی تلاشی شروع کردی، وہ بھی خواتین پولیس اہلکاروں کے بغیر، دلہن کے کمرے کو بھی نہیں بخشا گیا۔ پولیس کی ایسی کارروائی دیکھ کر شادی کی تقریب میں آنے والے لوگ دنگ رہ گئے۔ لیکن پولیس والے ایک ایک کرکے ہر کمرے کی تلاشی لینے لگے۔ تاہم اس چھاپے میں پولیس کو کچھ نہیں ملا۔ اس دوران وہاں موجود لوگ کافی تناؤ میں آگئے۔
مزید پڑھیں:
بتادیں کہ بہار میں زہریلی شراب پینے سے کئی اموات کے بعد وزیراعلیٰ نتیش کمار نے جائزہ میٹنگ طلب کی۔ میٹنگ میں پولیس کو (Nitish Kumar orders crackdown) سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی گئی۔ جس کے بعد پولیس بہت تیزی سے کام کر رہی ہے۔ راجدھانی پٹنہ میں بھی پولس ایک منصوبہ بند نظام کے ساتھ گلیوں میں شراب کی تلاش کر رہی ہے۔ شادی کی تقریب ہو یا کوئی اور پارٹی، پولیس کو ذرا سا بھی سراغ ملتے ہی پولیس وہاں پہنچ جا رہی ہے۔
پولس پر عام لوگوں کی ایف آئی آر نہ لکھنے، ان کی بات نہ سننے کا الزام ہے، لیکن اس بار ایسا کچھ نہیں ہے۔ کیونکہ پولیس اس کی تلاش کر رہی ہے جو بتایا گیا تھا۔ لیکن اس کارروائی میں خواتین کا خیال نہیں رکھا جا رہا ہے۔ قانون کے برعکس پولیس ٹیم خواتین کے کمرے میں بغیر کسی خاتون پولیس کے کارروائی کے پہنچ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں یہ خوف پایا جاتا ہے کہ اب پولیس بغیر کسی روک ٹوک کے کہیں بھی پہنچ سکتی ہے۔