ممتاز عالم دین مولانا انیس الرحمن قاسمی نے سی اے اے کے خلاف عدالت عظمی میں عرضی دائر کی تھی۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے آج کی کاروائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں توقعات ہیں کہ سپریم کورٹ سی اے اے کے سے قانون پر فورا حکم امتناعی نافذ کرے گا لیکن افسوس کے اس نے نئی تاریخ دے کر اس معاملے کو طول دے دیا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگلی سماعت وسیع تر بینچ میں ہو تاکہ آئینی طور پر اس کا مکمل جائزہ لے کر سپریم کورٹ اس متنازع قانون پر روک لگائے اور اس میں جو خامیاں ہیں اس کو دور کرنے کے لیے حکومت کو ہدایت دے۔
اس متنازع قانون کے خلاف آئندہ 30 جنوری کو پٹنہ کے کرسٹل میموریل ہاسپٹل میں 'سمویدھان بچاؤ دیش بچاؤ کنونشن' کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ لوگ اس چیز کو سمجھیں کہ مرکزی حکومت جس راستے پر جا رہی ہے وہ عوام کی فلاح کے لیے نہیں ہے۔
میڈیا کو 30 جنوری 2020 بروز جمعرات، صبح دس بجے سے سری کرشن میموریل ہال میں ہونے والے 'سمویدھان بچاؤ، دیش بچاؤ' کنوینشن کے سلسلہ میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ملک نازک دور سے گزر رہاہے، ایسے حالات میں ہندوستان کے ہرشہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کے تئیں بیداری کا ثبوت دیں اورآئین اورملک کی حفاظت کے لیے سڑکوں پر اتریں۔
مولانا قاسمی نے سپریم کورٹ کے آج کی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ہمیں توقع تھی کہ سپریم کورٹ سی اے اے جیسے ظالمانہ قانون پر فوراً حکم امتناعی نافذ کرے گا،لیکن افسوس کہ اس نے نئی تاریخ دے کر اس معاملہ کو طول دے دیا ہے،انہوں نے مزید کہاکہ ملک کی سا لمیت یہاں کی انیکتا اوررنگا رنگی میں ہے،صدیوں سے یہ ملک مختلف مذاہب،تہذیبوں کا گہوارہ رہاہے،سیکڑوں زبانیں یہاں بولی جاتی ہیں،فسطائی طاقتوں کو یہی بات گوارہ نہیں،یہ طاقتیں چاہتی ہیں کہ پورے ملک کو بھگوا رنگ میں رنگ دیا جائے،ظاہر ہے کہ یہ ایک غیر فطری عمل ہے اورہندوستان کے وسیع تر مفاد کے خلاف ہے۔اس عظیم ملک میں علاقائی تہذیبیں ہیں،ہزاروں سماجی قوانین ہیں، ہرایک سماج کا اپنا اپنا دستور ہے،ان کی رسمیں ہیں،ان رسموں کے ساتھ وہ ہندوستان کی خوبصورت تصویر پیش کرتے ہیں،یہی اس ملک کی خوبصورتی ہے۔اسے یک رنگی بنانا ملک کے روشن چہرے پر بدنما داغ ثابت ہوگا۔موجودہ مرکزی حکومت آر ایس ایس کے ایجنڈے پر کام کررہی ہے اوروہ اسی لیے یہ قانون لے کر آئی ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ہندوستانیوں کے دلوں میں نفرت کی دیوار کھڑی کی جائے۔ابھی اس قانون کا نشانہ مسلمان ہے،لیکن دراصل یہ قانون دلتوں،پسماندہ طبقات،درج فہرست ذات ودرج فہرست قبائل ہر ایک کے خلاف ہے،جب شہریت ثابت کرنے کا بوجھ ان دبے کچلوںکے کاندھوں پر پڑے گاتوان کے ہاتھ پاو ¿ں پھول جائیں گے۔ان کے لیے دستاویزی کاغذات دکھلانا ناممکن ہے،ملک کے80فیصد عوام کے پاس پیدائش سرٹی فکٹ نہیں ہے۔اورغریبوں کے پاس رہنے کو گھر تک نہیں۔پھر وہ کیسے ثابت کرسکیں گے کہ وہ اس ملک کے شہری ہیں۔اورجب ان کے لیے یہ ثابت کرنا ناممکن ہے کہ وہ ہندوستانی ہیں تو وہ یہ کیسے ثابت کرسکتے ہیں کہ وہ پاکستانی،افغانی یا بنگلہ دیشی مظلوم ہیں۔
دریں اثناءائمہ کرام کی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا قاسمی نے کہاکہ شہریت ترمیمی ایکٹ سی اے اے ،این آرسی اوراین پی آر ہندوستان میں رہنے والے غریبوں،دلتوں اورمسلمانوں کے خلاف فسطائی طاقتوں کی گہری سازش ہے؛تاکہ وہ اس قانون کے ذریعہ اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرسکے۔
مولانا قاسمی نے مزید کہاکہ فسطائی طاقتیں چاہتی ہیں کہ ہندوستان کو ہندوو کی راہ پر لے جائیں اوریہاں منواسمرتی کا قانون لاکر اقلیتوں،دلتوں اورسماج کے پسماندہ اوردبے کچلے طبقات کے خلاف اپنے ظلم کو قانونی جواز عطا کریں۔اگر ہندوستان میں این آر سی لاگو ہوگیا تو پورا ہندوستان ایسے بحران کا شکار ہوگا،جس کی تلافی میں صدیوں لگ جائیں گے۔
مولانا نے کہاکہ اس سیاہ قانون کے خلاف سنویدھان بچاو مورچہ کے زیراہتمام 30 جنوری 2020 کو تمام مذاہب، مسالک ومکاتب کے افراد پر مشتمل ایک کنوینشن کیا جارہا ہے؛ تاکہ سیاہ قانون کے خلاف تحریک کو مضبوط بنایا جاسکے۔ اس میٹنگ کی صدارت جمعیة العلماءبہار کے ناظم اعلیٰ حسن احمد قادری نے کی،انہوں نے ائمہ مساجد ودانشوران کی اس میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ یہ کنوینشن مختلف جگہ ہورہے احتجاج کو منظم کرے گا اوربکھری کوششیں یکجا ہوکر فسطائی طاقتوں کے خلاف مضبوط آواز بن کر ابھرے گی۔ مسٹر قادری نے اس کنوینشن کی تائید کرتے ہوئے تمام لوگوں سے بلا امتیاز مسلک ومشرب اس کنوینشن میں شرکت کی درخواست کی ہے۔
میٹنگ میں شریک شکیل احمد خاں ایم ایل سی نے کہاکہ میں لگاتار مختلف اضلاع اورعلاقوں کا دورہ کررہاہوں،چھوٹی بڑی میٹنگیں ہورہی ہیں،بہت سی میٹنگوں میں میرے ساتھ کنہیا کمار بھی تھے،مجھے محسوس ہوا ہے کہ پورا ہندوستان اس ظالمانہ قانون کے خلاف غصے سے بھرا ہوا ہے۔حکومت کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ فوراً اس قانون کو واپس لے لے۔تنظیم ائمہ مساجد کے جنرل سکریٹری مولانا عالم قاسمی نے کنوینشن کی تائید کرتے ہوئے اسے وقت کی ضرورت بتایا اورائمہ کرام سے بطور خاص اس کنوینشن کو کامیاب بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ ائمہ مساجد سماج میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں،اگر وہ اس قانون کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو شاید ہی کوئی ایسا فرد بچے گاجو اپنے گھروں میں بیٹھا رہ جائے۔معروف عالم دین اورفقیرواڑہ جامع مسجد کے امام وخطیب مولانا عتیق اللہ قاسمی نے اس کنوینشن کے تئیں اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی طرف سے ہرطرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔اس میٹنگ جن شخصیتوں نے شرکت کی،ان میں جامن گلی جامع مسجد کے امام مولانا ظہیر عالم رحمانی،مسلم مجلس مشاورت کے سکریٹری انوارالہدیٰ،آل انڈیا ملی کونسل کے کارگزارجنرل سکریٹری مولانا محمد نافع عارفی،مولانااسلم قاسمی امام جامع مسجدشرف کلینک وغیرہم شریک ہوئے اورکنوینشن کو کامیاب بنانے اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
ملی کونسل کے کارگزار جنرل سکریٹری مولانا محمد نافع عارفی نے این پی آر کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ حکومت چور دروازے سے سنسس اورمردم شماری کے نام پر این پی آر کے ذریعہ این آر سی لانے کی کوشش کررہی ہے،اس لیے عوام کسی طرح کا کوئی کاغذ جمع نہ کریں۔کیوں کہ این پی آر وہ پہلی کڑی ہے،جس کا سرا این آرسی پر جاکررکتا ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ سی اے اے جتنا خطرناک ہے،اس سے کہیں زیادہ خطرناک این آرسی اوراین پی آر ہے،اگر ملک میں این آر سی نفاذ عمل میں آیا تو پانچ سے دس کروڑ لوگ این آر سی سے باہر ہوجائیں گے،نتیجتا ملک میں انارکی پھیلے گی،تباہ حال اقتصادی حالت مزید تباہ ہوگی۔لوگ سڑکوں پر اتریں گے،جو تحریک چل رہی ہے،وہ شعلہ بن جائے گی اورملک کی سا لمیت اس میں جل کر خاکستر ہوسکتی ہے۔مرکزی حکومت آگ سے کھیل رہی ہے اوراسے ضد ہے کہ یہ آگ پٹرول سے ہی بجھے گی،اس لیے آل انڈیا ملی کونسل حکومت ہند سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ سی اے اے،این آر سی اوراین پی آر کو واپس لے۔مولانا نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں 30جنوری2020کو سری کرشن میموریل ہال پہنچ کر آئین اورملک کی تئیں اپنی بیداری کا ثبوت دیں۔