بہار کا گیا ایک شہرت یافتہ شہر ہے اور نہ صرف یہاں مذہبی مقامات ہیں بلکہ ملک و بیرون ملک سے سیاح بھی آتے ہیں۔ یہ ایک وقت میں اردو کی نامور شخصیات کے مسکن کے لیے بھی معروف و مشہور رہا ہے لیکن اب اردو سے جس طرح سے لوگ دور ہو رہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ پچاس برسوں میں ختم بھی ہو جائےگا۔ صرف پرانی یادیں وابستہ رہ جائیںگی۔
حال کے دنوں میں تو کوشش ہوئی ہے کہ گیا ضلع جو اردو کی نامور شخصیات کے لیے مشہور ہے وہ سلسلہ ٹوٹے نہیں لیکن اسکے لیے نوجوانوں کو جوڑنے کی ضرورت ہے۔ ای ٹی وی بھارت اردو نے جب اس سلسلے میں اردو کے فروغ پر کام کرنے والے مشہور سماجی خدمت گار پروفیسر عبد السلام سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ چونکہ حکومت خاص طور پر ریاستی حکومت اور اسکے ماتحت اردو ادارے تو چاہتے ہیں کہ اردو کا فروغ ہو لیکن اردو برادری کہیں نہ کہیں اردو کے فروغ پر کام کرنے میں پیچھے ضرور ہے۔ نئی نسل کو اردو سے جوڑا نہیں جارہا ہے. یہ حقیقت ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اردو پڑھنے پر زور نہیں دیتے ہیں۔ کمی والدین کی بھی ہے کہ انہوں نے بچوں کو اردو سے نہیں جوڑا ہے۔ اگر نئی نسل کے لوگ اردو سے جڑگئے تو ہماری پہچان اور ہماری ثقافت خود بخود مضبوط ہوگی۔ کسی کے سہارے اور مدد کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن اسکے لیے بے حد ضروری ہے کہ اسکولوں سے لیکر کالج تک اردو میں پڑھنے والوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہم لازم کرلیں کہ ہمارے گھروں میں اردو کا رسالہ یا اردو اخبار کی ایک کاپی ضرور پہنچے تاکہ ہم خود پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھنے پر بھی زور دیں۔ اردو کے فروغ کیلئے اردو برادری کو پہل کرنی ہوگی۔ اردو ایک ایسی زبان ہے جو ختم ہونے والی نہیں ہے لیکن اسکا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہم اسکے فروغ پر کام نہیں کریں۔ اردو ٹیچرز پروفیسرز ،رائٹرز سبھی اپنے وسائل کے مطابق ہی کام کریں. ہم اردو کے جانکاروں کی مدد کریں۔ اردو کا مستقبل تابناک ہے. صرف ضرورت ہے کہ ہم ایمانداری سے اس پر پچاس فیصد کام کرلیں تو فروغ دینے کی مہم چلانے کی ضرورت نہیں پڑیگی۔