اس موقعے پر معروف ناول نگار پروفیسر عبدالصمد نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران کہا کہ اختراورینوی بیک وقت افسانہ نگار، شاعر، نقاد، عمدہ مقرر اور اعلی درجے کے استاد تھے۔
ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر عبدالصمد نے کہا کہ بہار کے اردو ادب میں ان کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ طنز و مزاح کے شعبے میں انجم مانپوری کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انجم مانپوری کو گزرے ہوئے 80 برس ہوگئے لیکن آج بھی وہ لوگوں کے دلو میں زندہ ہیں۔
بہار کے شاعر شفیع مشہدی نے کہا کہ جو قومیں اپنے اسلاف کو یاد کر کے ان کے ساتھ اپنے عقیدت کا اظہار نہیں کرتیں وہ خود نقصان میں رہتیں ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ان شخصیات کی خدمات کے اعتراف سے نئی نسل کی تربیت ہوتی ہے۔ اختر اورینوی اور انجم مانپوری یہ 2 شخصیتیں بہار کی ہی نہیں اردو ادب کی قد آور شخصیات تھیں۔
بہار میں اردو ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر امتیاز احمد کریمی نے کہا کہ ان دونوں شخصیات کا اردو ادب میں انتہائی اہم کردار رہا ہے۔
اختر اورینوی نے تمام اصناف میں طبع آزمائی کی، لیکن بنیادی طور پر ان کو شہرت افسانہ نگاری سے حاصل ہوئی۔ اسی طرح انجم مانپوری کا شمار بھی عظیم انشائیہ نگار میں ہوتا ہے۔
ان کی دو کتابیں 'کرائے کی ٹمٹم' اور 'میر کلو کی گواہی' انشا نگاری کی شاندار شاہکار ہیں۔