موجودہ سیاست صرف پیسو ں کا کھیل بن کر رہ گئی ہے پالیسی،نظریہ، قوم وغیرہ کا تصور قصہ پارینہ بن گیا ہے۔ بی جے پی گزشتہ کچھ برسوں سے ایک نیا کھیل شروع ہوا ہے’’ پیسہ پھینکو تماشہ دیکھو‘‘ اس کھیل میں سب سے پہلے آپ کی ذات کے متعلق سوال کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد امیدوار سیاست میں کتنا خرچ کر سکتاہے اس کا اندازہ لگایاجاتا ہے۔ یعنی موجودہ انتخابات میں ذات پات اور دولت دو اہم عوامل درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ سے کہ سیاسی جماعت بھی امیر سے امیر ترین ہوتی جا رہی ہیں۔
سامنا نے مزید لکھا ہے کہ 2019.20 اس ایک برس میں سونیا گاندھی کی نیشنل کانگریس پارٹی کو چھوٹا سا چندہ یعنی 139؍کروڑ روپئےملا ہے۔ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی بھی امیر ترین پارٹی ہے اسے بھی 59 کروڑ روپئے کا چندہ ملا ہے۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس کو8کروڑ، سی پی ایم کو19.6کروڑ، سی پی آئی کو1.9کروڑ روپئےکے چندے سامنے آئے ہیں۔
بی جے پی کے 750 کروڑ کایہ اعدادو شمار اس سے بھی بڑا ہوسکتا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کی گئی رپورٹ میں 20؍ ہزار سے زیادہ رقم چندہ کےمد میں پیش کی گئیں ہیں یہ 20ہزارچندہ دینےوالے لوگ کروڑوں کی تعداد میں بھی ہوسکتے ہیں۔سامنا نے مزید لکھاہے کہ اس بار سب سے بڑا ڈونرپروڈینٹ الیکٹورل ٹرسٹ ہے، اس نے بی جےپی کو 217.75 کروڑ روپئے کی خطیر رقم عطیہ میں دی ہیں۔
آئی ٹی سی گروپ کے ذریعہ76کروڑ، جن کلیان ٹرسٹ کی جانب سے45.95؍کروڑ، اس کےعلاوہ مہاراشٹر کے بی جی شرکے کنسٹرکشن نے35؍کروڑ،لوڈھا ڈیولپرز21؍کروڑ، گلن ڈیولپرز،جیوپیٹر کیپبل15.15کروڑ روپئے ان کےعلاوہ ملک کے14؍تعلیمی اداروں نے کروڑوں روپئے بی جے پی کی چندہ پیٹی میں ڈالے ہیں۔اس وقت بی جے پی دہلی کے تخت پربراجمان ہے اور بڑےبڑے صنعتکاروں کی چابیاںبی جے پی کے کاروباری لوگوں کے پاس ہیں۔2014 اور2019کے عام انتخابات میں رقم کا بے تحاشہ اور اندھادھند استعمال کیا گیا ہے۔ ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر تک پیسہ لے جانے کے لئے استعمال میں لائے گئے ہیں۔
سامنا نے مزیدلکھاہے کہ طاقت اورپیسہ بہت اہم ہے اقتدارسے پیسہ اور پیسے سے اقتدارحاصل کیا جاتاہےایسا نہیں لگتا کہ ہماری جمہوریت میں کسی کے لئے بھی اب اس شیطانی دائرے کو توڑنا ممکن ہوگا۔ صنعتکار ، بلڈر ، ٹھیکیدار ، کاروباری حلقے ، کسی بھی سیاسی جماعت کو کروڑوں روپے کا عطیہ کرتے ہیں کیا یہ صرف ضمانت کے لئے ہے؟ اگلے پانچ سالوں میں ان عطیات کی بازیافت صحیح طریقے سے کی جا رہی ہے۔صنعتکاروں کے لئے قوانین تبدیل کردیئے گئے ہیں۔ قواعد کو موڑ دیا جاتا ہے اور مناسب انتظامات کیے جاتے ہیں تاکہ ان سے اپنے عطیات کو مکمل طور پر بازیافت کرسکیں۔