’’مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی، معاشی خستہ حالی اور اُنکے پچھڑے پن کا جائزہ لینے اور اس ضمن میں سفارشات پیش کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے ابتک جتنے بھی کمیشن اور کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ان سب نے اپنی اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کی ترقی و فلاح و بہبود کے لیے تحفظات (ریزرویشن) کے نفاذ کو ہی ایک تیر بہدف نسخہ اور واحد حل تجویز کیا ہے، اسی لیے مسلمانوں کے سماجی، معاشی اور تعلیمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ترقی سے محروم اس سماج کو دیگر سماج کے برابر کھڑا کرنے کے لیے انہیں 5 فیصد تحفظات (ریزرویشن) دینے کے لیے فوری طور مناسب اقدامات اٹھائے جائیں‘‘ اس طرح کا مطالبہ، مولانا آزاد وچار منچ کے بانی صدر اور سابق رکن پارلیمنٹ و کانگریس پارٹی کے نائب صدر حسین دلوائی نے مہاراشٹرا کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے سے کیا۔
مولانا آزاد وچار منچ کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو دیئے گئے اس میمورنڈم میں مسلمانوں کی موجودہ صورتحال اور انکی تعلیمی، معاشی پسماندگی کی تفصیل سے وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ، ابتک تمام ہی کمیشنوں نے مسلمانوں کو تحفظات (ریزرویشن) دینے کی سفارش کی ہے اس لیے یہ عین دستور کے مطابق ہوگا کہ دیگر پسماندہ طبقات کی طرح انہیں بھی تحفظات دیے جائیں۔
میمورینڈم میں کہا گیا کہ مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی، معاشی خستہ حالی کا جائزہ لینے کے لیے بہت پہلے ڈاکٹر گوپال سنگھ کیمٹی تشکیل دی گئی تھی، جس نے مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی خستہ حالی کی رپورٹ ملک کے سامنے رکھی تھی اس کے بعد سچر کمیٹی کی رپورٹ میں بھی مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی حالات کو دیگر پسماندہ طبقات سے بھی خستہ بتایا گیا تھا، اسطرح رنگ ناتھ مشرا کمیشن اور حکومتِ مہاراشٹرا کی تشکیل کردہ محمودالراحمن کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کی سیاسی سماجی تعلیم معاشی حالات کو بد سے بدتر بتایا۔ ابتک سارے کمیشنوں نے اپنی اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کی ترقی و فلاح و بہبود کے لیے تحفظات کو ہی ایک واحد حل بتایا ہے۔
میمورنڈم میں مزید کہا گیا ہے کہ اس سے پہلے مہاراشٹر میں کانگریس و راشٹروادی کانگریس کی سرکار نے مراٹھا سماج کو 16 فیصد اور مسلمانوں کے لیے 5 فیصد تحفظات (ریزرویشن) کی تجویز کو 21 جولائی 2014 کو منظوری دی تھی، لیکن اس کے خلاف ممبئی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ میں دائر عرضی داخل کیے جانے کے بعد عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے ریاست میں مسلمانوں کی خستہ حالی اور پچھڑے پن کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف تعلیمی میدان میں 5 فیصد تحفظات دینے کو حق بہ جانب قرار دیا تھا۔ اس کے بعد مراٹھا سماج نے ریاست بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج کا کیا، اور مہارشٹرا حکومت نے مراٹھا سماج کے احتجاج کا نوٹس لیتے ہوئے مراٹھا ریزوریشن کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔
میورینڈیم میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم مراٹھا سماج کو دیے گئے ریزرویشن کا کھلے دل سے استقبال کرتے ہیں، تاہم اسی کے ساتھ مسلم سماج کو ریزرویشن دینے کیلے بھی، مہا وکاس اگھاڑی کی حکومت کو فوری اقدام اٹھانے چایئے، مسلمانوں کے تعلق سے حکومت کی جانب سے اختیار کی گی سرد مہری کے باعث ریاست میں مسلمانوں میں غم وغصہ اور بے چینی کا ماحول ہے۔ اور عوامی سطح پرکہا اور محسوس کیا جا رہا ہے کہ سب کو ایک جیسا انصاف دینے کی قسم کھانے والی حکومت مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ اپنا رہی ہے۔ جو کہ ایک افسوس ناک عمل ہے۔‘‘
میورینڈیم میں مزید کہا گیا ہے مراٹھا سماج کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی ریزرویشن کی ضرورت ہے جبکہ یہ سرکار سیکولر بنیاد پر بنائی گئی ہے۔ اس لیے مسلم ریزرویشن کے لیے فوری کارروائی کیے جانے کی ضرورت ہے۔
میمورنڈم میں مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ، مدرسوں میں ماڈرن عصری تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد 5 فیصد ہے۔ مسلم بچہ مزدوروں کی تعداد 38 فیصد ہے۔ اس کا مطلب کے 38 فیصد بچے پہلے ہی سے تعلیم سے محروم ہیں اور بیچ میں ہی تعلیم ادھوری چھوڑنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ مسلم سماج کی کل تعداد میں سے 40 فیصد لوگ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور 80 فیصد لوگ معاشی بحران کا شکار ہیں۔ صرف 10 سے15 فیصد ہی مسلمان تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ جبکہ سرکاری ملازمت میں مسلمانوں کا تناسب 2 فیصد سے بھی کم ہے۔ کم از کم 50 فیصد مسلمان جھونپڑ پٹی اور نیم پختہ مکانات میں رہائش پذیر ہیں۔ نیز مسلمانوں کی اکثریت گاؤں اور دیہات میں آباد ہے، جہاں تعلیم اور صحت کے لیے کوئی بہتر اور حسب ضرورت انتظامات نہیں ہوتے ہیں۔ ان وجوہات کی بناء پر مسلمانوں کی پسماندگی میں اضافہ ہو رہاہے۔ اور وہ تعلیمی میدان میں ملک کی دیگر اقلیتوں اور سماج کے دیگر بچھڑے طبقات سے بہت پیچھے نظر آتے ہیں۔
میومورنڈم میں سچر کمیٹی اور دیگر کمیشنوں کی سفارشات کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ مسلم سماج کی ریزریشن بہت ضروری ہے۔ دستور کی آر ٹیکل 15 (4) اور 16(4) کے تحت سماجی اور تعلیمی بچھڑوں کے لیے خاص طور پر انتظام کرنے کا اختیارحکومت کو دیا گیا ہے اس لیے مسلمانوں کو ریزرویشن دینا عین دستور کے مطابق ہوگا۔
یہ میمورندم حسین دلوائی کے علاوہ، عبدالکریم سالار (نائب صدر مولانا آزاد وچارمنچ)، عین العطار (جنرل سیکریٹری مولانا آزاد وچار منچ) رضیہ پٹیل، روفی بھورے، صادق خان (ممبی صدر)، فیروزہ ٹیسیکر (مہیلہ صدر) خلیل دیشمکھ (پردیش سیکریٹری) ڈاکٹر دانش لامبے، شوکت پٹیل، نازنین شیخ قیوم ہونڈے کر، مزمل خان بلڈانہ، امن نرمان ایوات محل، اسمعیل پٹیل شولا پور، سلیم شیخ پونا وغیر کی جانب سے دیا گیا ہے۔