مودہ وقت میں بچوں میں موبائل اور دیگر اسکرینوں مثلاً کمپیوٹر،لیپ ٹاپ، ٹی وی اور ٹیبلٹ وغیرہ کے استعمال کارجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ خاص کر کووڈ اور لاک ڈاون کے بعد تو صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ بچے اسکرین اور موبائل کے بغیر رہناہی نہیں چاہتے۔
ماہرین کے مطابق اسکرین کے اس طرح بے جااستعمال سے بچوں کی عمومی زندگی بھی عدم توازن کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔ وہیں دوسری طرف لکڑی سے تیار ہونے والے کھلونوں کو بچے اب نظر انداز کرنے لگے ہیں۔ جس کے سبب لکڑی کا کھلونا بنانے والے مستری مستقبل سے متعلق شش وپنج کا شکار ہیں۔
ریاست مہاراشٹر کے مسلم اکثریتی شہر مالیگاؤں کے اسلام پورہ سے تعلق رکھنے والے معین الدین اسحاق مستری گزشتہ کئی برسوں سے کیرم بورڈ بنانے کے کاروبار سے منسلک ہیں۔
اس تعلق سے معین الدین نے بتایا کہ انہوں نے اپنے والد سے یہ فن سیکھا ہے اور ان کے والد بھی کیرم بورڈ کے ایک کاریگر تھے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ مختلف قسم کے کیرم بورڈ بناتے ہیں اور کیرم بورڈ کی ڈیزائن ان کی اہلیہ گھر پر بنایا کرتی تھیں۔ ان کے انتقال کے بعد اب ان کی بہو کیرم بورڈ پر ڈیزائن بناتی ہیں۔
معین الدین نے کیرم بورڈ بنانے کے تعلق سے بتایا کہ سب سے پہلے وہ کیرم بورڈ کی لکڑی خرید کر اسے تیار کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اچھا میٹریل استعمال کریں تاکہ یہ زیادہ پائیدار بن سکے۔
کیرم بورڈ بنانے والے معین الدین مستری کے مطابق پہلے اس کاروبار سے اچھی آمدنی ہوجایا کرتی تھی لیکن اب زیادہ تر لوگ موبائل فون پر گیم کھیلنے لگے ہیں۔ جس کے سبب یہ کاروبار اب سست رفتار سے چلنے لگا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کے بنائے ہوئے کیرم بورڈ مختلف شہروں میں مشہور ہے۔ لیکن اب لوگوں کا ان چیزوں میں رجحان بہت کم ہو گیا ہے۔ لہٰذا گزر بسر کے لیے فرنیچر کا بھی کام کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب زیادہ تر لوگ موبائل فون پر گیم کھیلنے لگے ہیں۔جس کے سبب یہ کاروبار اب سست رفتار سے چلنے لگا ہے۔ جس کی وجہ سے بمشکل دس سے پندرہ پیس بنتے اور فروخت ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں:لاک ڈاؤن کے سبب کولہاپوری چپلوں کا کاروبار رو بہ زوال
معین الدین نے مستقبل کے عزائم کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ اس کام کو وہ اعلیٰ سطح تک لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن معاشی حالات اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر حکومت یا پرائیویٹ ادارے ان کی مالی مدد کریں تو وہ اس کام کو بہت آگے لے جا سکتے ہیں۔