حکومت مہاراشٹر نے مسلمانوں کو ریزرویشن دینے سے صاف انکار کر دیا ہے اور وزیر برائے اقلیتی امور و تعلیم ونود تاؤڑے نے کہا کہ 'حکومت مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن دینے کے خلاف ہے۔'
اس موقع پر رکن کونسل وجاہت مرزا نے واضح کیا کہ مسلمانوں کو سابقہ کانگریس اور این سی پی حکومت نے پسماندگی کی وجہ سے تعلیم اور روزگار میں پانچ فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان کیا تھا لیکن 2014 میں بی جے پی نے اقتدار میں آنے کے بعد اس سلسلے میں کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا حالانکہ ہائی کورٹ نے بھی مسلمانوں کو تعلیمی سطح پر پانچ فیصد ریزرویشن دینے کی حکومت کو ہدایت دی تھی مگر حکومت نے سابقہ حکومت کے آرڈیننس میں توسیع نہیں کی اور اب تو صاف طور پر انکار کر دیا ہے۔
وجاہت مرزا نے کہا کہ 'مسلمانوں کی معاشی، تعلیمی اور سماجی پسماندگی کے سبب ریزرویشن کا مطالبہ کیا جا رہا ہےکیونکہ جسٹس سچر کمیشن کی رپورٹ اور محمودالرحمان کمیٹی نے مسلمانوں کی پسماندگی کو سب کے سامنے پیش کر دیا ہے لیکن حکومت مذہب کو بنیاد بنا کر ریزرویشن دینے سے انکار کر رہی ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔'
واضح رہے کہ ایم ایل سی حسنہ بانو خلیفے نے بھی ایوان میں کہا تھا کہ مسلمانوں کو پسماندگی کی بنیاد پر ریزرویشن کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور اس میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
مہاراشٹر اسمبلی میں ڈپٹی رہنما اور سینیئر کانگریسی رہنما عارف نسیم خان نے بھی مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایوان میں سخت احتجاج کیا تھا اور موجودہ حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ موجودہ حکومت کو سابقہ حکومت کے ذریعے مسلم ریزرویشن کے بارے میں پیش کردہ بل کو قانون کی حیثیت دینا چاہئے تاکہ پسماندہ مسلمان اپنے حق سے محروم نہ ہوں۔
واضح رہے کہ سابقہ کانگریس اور این سی پی حکومت نے 2014 میں مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار میں پانچ فیصد اور مراٹھا سماج کو 18 فیصد ریزرویشن دینے کا آرڈیننس جاری کیا تھا۔
بعدازیں اس معاملے کو عدالت میں چیلینج کیا گیا اور ہائی کورٹ نے بھی مسلمانوں کو تعلیم میں ریزرویشن دینے کا حکم دیتے ہوئے مراٹھا ریزرویشن کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کے باوجود حکومت مراٹھاﺅں کے حق میں کئی فیصلے کر چکی ہے لیکن مسلمانوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔