عمار رضوی کاروباری ہیں اور ان کا دفتر اس ایرانی حمام سے متصل ہے۔ عمار کہتے ہیں کہ اس حمام کو ڈیڑھ سو برس ہو چکے ہیں جو آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ یہ عباسی فیملی کی ملکیت ہے۔ عبّاس حمامی کا انتقال ہو چکا ہے۔ اب ان کی زوجہ اسے چلاتی ہیں، لیکن پہلے اور اب میں بہت فرق ہے۔ اب ملازم یہاں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے ہیں۔
یہاں اندر کے حصے میں چھوٹے چھوٹے کمرے بنائے گئے ہیں، جو آج بھی موجود ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں افراد کے غسل کے لیے ضرورت کے مطابق ایک یا ایک سے زیادہ کمرے بنائے گئے ہیں۔ ان کے گرد پانی گرم کیا جاتا تھا۔
پانی کو اندر لے جا کر اس دور کے ٹبوں یا ہودیوں میں ڈال دیا جاتا۔ ان حماموں کی خاصیت یہی ہے کہ ابلتے پانی کی بھاپ کو حمام میں لایا جاتا تھا جس سے اندر کا منفی درجہ حرارت بھی معتدل ہو جاتا۔
اس طرح سے حمام میں جانے والے گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے۔ ایک ہی حمام میں سب لوگ بھاپ اور گرم پانی کے مزے لیتے تھے۔ یہاں جو نہلانے والے لوگ ہوتے ہیں اُنہیں حمامی کہا جاتا ہے۔
پہلے یہاں ہندو مسلم سبھی آتے تھے۔ کچھ لوگ شوقیہ آتے تھے، کچھ لوگ جوڑوں کے درد، کمر درد کے سبب یہاں آتے تھے کیونکہ یہاں کے ملازم انھیں نہلانے سے پہلے ان کی خاص قسم کے تیل سے مالش کرتے تھے، جس سے جوڑوں کے درد سے راحت ملتی تھی۔ اس کام کے لئے پہلے یہاں چار ملازم تھے لیکن اب صرف ایک ہی ملازم موجود ہے۔
پہلے لوگوں کی تعداد خاصی تھی اب یہاں لوگ جو آتے ہیں وہ برائے نام رہ گئے ہیں۔ اکثر شادی کرنے والے دولہے خصوصی غسل کے لئے یہاں دکھائی دیتے ہیں۔
اب لوگوں کے نہ آنے کے پیچھے کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ منتظمین کی جانب سے اس کی دیکھ بھال، تزئین و مرمت کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔
حمام آج بھی اصلی حالت میں موجود ہے لیکن تزئین و مرمت میں منتظمین پیچھے رہ گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ صاف صفائی کا بھی کوئی خاص خیال نہیں رکھا گیا۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ نے اس تعلق سے عبّاس حمامی کی زوجہ سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس بارے میں بات کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ہم نے اطراف میں کئی لوگوں سے اس بارے میں بات کی تو کچھ لوگوں نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اس ملکیت کی دعوے دار بھلے ہی عباسی فیملی ہو، لیکن اصل میں کوئی اور ہے۔
عباسی فیملی جو صرف اس کے کیئر ٹیکر تھے جو بعد میں ملکیت کے دعوے دار بن بیٹھے اور اب اسے بیچنے کی فراق میں ہیں۔
مزید پڑھیں:
ممبئی: ٹور اور ٹراویلس کا کاروبار ابھی بھی لاک ڈاؤن کی نذر
دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ اس پر کہیں محکمہ آثار قدیمہ کی نظر نہ پڑ جائے، اس لئے عباسی فیملی نہیں چاہتی کہ حقائق عوام کے سامنے آئیں۔